مشکوٰۃ المصابیح - کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان - حدیث نمبر 152
وَعَنْہُ قَالَ کَانَ اَھْلُ الْکِتَابِ ےَقْرَءُ وْنَ التَّوْرٰۃَ بِالْعِبْرَانِےَّۃِ وَےُفَسِّرُوْنَھَا بِالْعَرَبِےَّۃِ لِاَھْلِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُصَدِّقُوْا اَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُمْ وَقُوْلُوْا &&اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَےْنَا &&اَلْاٰےَۃِ (پ١رکوع١٤)
کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تو رات کو عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے (جو یہودیوں کی زبان ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کی تفسیر عربی زبان میں کیا کرتے تھے سرکار دو عالم ﷺ نے ان کا یہ عمل دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم سے فرمایا)۔ تم اہل کتاب کو نہ تو سچا جانو اور نہ ان کو جھٹلاؤ (صرف) یہ کہ کہو کہ ہم اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم پر نازل کی گئی، ایمان لائے (آخر آیت تک)۔ (صحیح البخاری )

تشریح
پوری آیت یہ ہے آیت (قُوْلُوْ ا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَا اُنْزِلَ اِلٰ ى اِبْرٰھ مَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَا اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَا اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَه مُسْلِمُوْنَ ) 2۔ البقرۃ 136) (مسلمانو! ) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کو عطا ہوئیں ان پر اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے اہل کتاب (یعنی یہودی) تو رات کی کسی عبارت کا ترجمہ و تفسیر کریں تو ان کو نہ جھٹلاؤ اور نہ ان کو سچ جانو بلکہ یہ آیت کریمہ پڑھو اور ان کو سچا اس لئے نہ جانو کہ یہ لوگ کتاب الہٰی میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ تمہارے سامنے جس عبارت کا ترجمہ و تفسیر کر رہے ہیں، اس کو انہوں نے بدل دیا ہو اور ان کو جھٹلاؤ اس لئے نہیں کہ اگرچہ انہوں نے تورات میں تغیر و تبدل کر رکھا ہے لیکن پھر بھی وہ کتاب ہے الہٰی ہے اور حق ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ شاید وہ سچ اور صحیح عبارت نقل کر رہے ہوں۔
Top