مشکوٰۃ المصابیح - کفاروں کا بیان - حدیث نمبر 3843
عن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كتب إلى قيصر يدعوه إلى الإسلام وبعث بكتابه إليه دحية الكلبي وأمره أن يدفعه إلى عظيم بصرى ليدفعه إلى قيصر فإذا فيه : بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد فإني أدعوك بداعية الإسلام أسلم تسلم وأسلم يؤتك الله أجرك مرتين وإن توليت فعليك إثم الأريسيين و ( يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا : اشهدوا بأنا مسلمون ) متفق عليه . وفي رواية لمسلم قال : من محمد رسول الله وقال : إثم اليريسيين وقال : بدعاية الإسلام
قیصر روم کے نام مکتوب نبوی ﷺ
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے قیصر روم کے بادشاہ کو ایک گرامی نامہ لکھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ﷺ نے اپنا وہ گرامی نامہ لکھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ﷺ نے اپنا وہ گرامی نامہ دحیہ کلبی (صحابی) کے ہاتھ روانہ فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ اس گرامی نامہ کو بصریٰ کے حاکم کے پاس پہنچا دیں تاکہ وہ حاکم بصریٰ اس کو قیصر کے پاس پہنچا دے۔ اس گرامی نامہ میں یہ لکھا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ﷺ کی جانب سے جو اللہ کا بندہ خاص اور رسول ہے۔ ہرقل کے نام جو روم کا حکمران اعلیٰ ہے اس پر سلامتی ہو (جو قبولیت اسلام اور اپنے نیک کردار و اعمال کے ذریعہ) ہدایت کا پیرو ہے۔ بعد ازاں میں آپ کو اسلام کلمہ شہادت کی دعوت دیتا ہوں آپ اسلام قبول کرلیجئے دنیا کے اور آخرت کے عذاب سے محفوظ ومامون رہے گا آپ مسلمان ہوجایئے اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجر عطا فرمائے گا کہ ایک اجر تو اپنے نبی ﷺ پر ایمان لانے کا اور ایک اجر مجھ ﷺ پر ایمان لانے کا اور اگر آپ منہ پھریں گے یعنی اسلام قبول نہیں کریں گے تو آپ کو واضح رہنا چاہئے کہ اس انکار و اعراض کی وجہ سے آپ پر صرف اپنے ہی گناہ کا وبال نہیں ہوگا بلکہ آپ کے ملک والوں اور آپ کی رعیت کا گناہ (بھی) آپ پر ہوگا کیونکہ آپ کے اسلام نہ لانے سے وہ بھی کفر میں مبتلا رہیں گے اس لئے ان کی گمراہی کی ذمہ داری بھی آپ ہی پر ہوگی) اے اہل کتاب! ایسے کلمے اور ایسے دین کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں اور مشترک ہے۔ (یعنی اس کلمہ اور دین میں ہمارے اور تمہارے رسولوں اور کتابوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہ کلمہ ودین یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے (جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رب بنا لیا ہے) پس اگر اہل کتاب اس بات کو قبول کرنے سے انکار کریں تو (اے مؤمنو) تم یہ اعلان کردو کہ (اے کافرو! ) گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ ( بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں من محمد عبداللہ ورسولہ کی جگہ من محمد رسول اللہ ہے اور (اثم الاریسیین) کی جگہ (اثم الیریسییین) ہے اور بداعیۃ الاسلام کی جگہ (بدعایۃ الاسلام) ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت روم (رومن امپائر) کی حکومت اپنی سطوت وجبروت اور طاقت و عظمت کے لحاظ سے دنیا کی ایک بڑی عظیم طاقت اور پرشوکت حکومت تھی۔ روم کی حکومت کا دار السلطنت قسطنطنیہ تھا اور اس وقت یورپ کے مختلف ممالک کے علاوہ شام و فلسطین اور مصر بھی اسی کے زیر اقتدار تھے، قیصر روم کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا جیسا کہ فارس ( ایران) کے بادشاہ کو کسری حبش کے بادشاہ کو نجاشی ترک بادشاہ کو خاقان قبط کے بادشاہ کو فرعون مصر کے بادشاہ کے عزیز اور حمیر کے بادشاہ کو تبع کہا جاتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے زمانے میں روم کا جو قیصر تھا اور جس کو آپ ﷺ نے یہ گرامی نامہ بھیجا تھا اس کا نام ہرقل (ہرل یوس) تھا یہ ہرقل جس طرح اپنی شان و شوکت میں ممتاز سمجھا جاتا تھا اسی طرح مذہبی علوم یعنی تورات و انجیل کا بھی زبردست عالم تھا۔ دحیہ کلبی ایک صحابی تھے ان کی سب سے بڑی امتیازی شان یہ تھی کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اکثر انہیں کی صورت میں اترتے تھے۔ بصریٰ شام کے ایک شہر کا نام تھا جو ایک بڑا متمدن اور تجارتی مرکز تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی ابتدائی زندگی میں جو دو تجارتی سفر فرمائے تھے اس میں ایک سفر میں آپ ﷺ بصریٰ بھی تشریف لے گئے تھے۔ حضرت دحیہ کلبی کا سفارت پر مامور ہو کر قیصر کے نام آنحضرت ﷺ کا مکتوب گرامی لے جانا سنہ ٦ ھ یا ٧ ھ کے شروع کا واقعہ ہے روایات اور تاریخ سے ثابت ہے کہ قیصر روم نے اس نامہ مبارک سے اس حد تک اثر قبول کیا تھا کہ اس نے آپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی تھی اور اس کے دل میں نور اسلام جلوہ فگن ہوچکا تھا مگر رعایا اور اہل دربار کے خوف سے اور تخت وتاج کی محبت میں وہ روشنی بجھ کر رہ گئی اور مسلمان نہیں ہوسکا چناچہ منقول ہے کہ اس نے نامہ مبارک پڑھے جانے کے بعد اپنے اہل دربار کی برہمی دیکھ کر حضرت دحیہ سے کہا کہ اگر مجھے اپنے لوگوں سے اپنی جان کا خوف نہ ہوتا تو میں ضرور تمہارے نبی کا اتباع کرتا وہ محمد ﷺ بلاشبہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ خط لکھنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ تحریر کی ابتداء بسم اللہ سے ہو اور خط لکھنے والے کا نام بھی پہلے لکھا جائے ملا علی قاری کہتے ہیں یہ بات حدیث ہی سے ثابت نہیں بلکہ قران کریم کی اس آیت (انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم) سے بھی مفہوم ہوتی ہے ہرقل چونکہ غیر مسلم تھا اس لئے أنحضرت ﷺ نے اپنے نامہ مبارک میں اس کو خطاب کرتے ہوئے سلام علیک تم پر سلامتی ہو نہیں لکھا بلکہ یہ بلیغ اسلوب اختیار فرمایا کہ (وسلام علی من اتبع الہدی) اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے اس میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ تخاطب کی ابتداء کنایتًہ سلام کے ساتھ کرنا جائز ہے۔
Top