مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4135
عن المغيرة بن شعبة قال : ضفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فأمر بجنب فشوي ثم أخذ الشفرة فجعل يحز لي بها منه فجاء بلال يؤذنه بالصلاة فألقى الشفرة فقال : ما له تربت يداه ؟ قال : وكان شاربه وفاء فقال لي : أقصه على سواك ؟ أو قصه على سواك . رواه الترمذي
چھری سے گوشت کاٹ کر کھانا جائز ہے
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک رات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ کسی شخص کے ہاں مہمان ہوا۔ اس شخص نے (ہمارے لئے) ایک بکری ذبح کی اور رسول کریم ﷺ نے اس (بکری) کا ایک پہلو بھوننے کا حکم دیا، جب وہ پہلو بھون دیا گیا آنحضرت ﷺ نے ایک چھری لی۔ پھر اس کے ذریعہ اس پہلو میں سے میرے لئے (بوٹیاں کاٹنے لگے، اتنے میں حضرت بلال ؓ آنحضرت ﷺ کو نماز کی اطلاع دینے کے لئے آگئے، آپ ﷺ نے چھری کو ڈال دیا اور (بطریق تعجب) فرمایا کہ بلال کو کیا ہوا؟ (کہ ایسے وقت بلانے آگیا) اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ حضرت مغیرہ ؓ کہتے ہیں کہ (اس وقت) اس کی لبیں (یعنی مونچھیں) بڑھی ہوئی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ۔ میں تمہارے لئے (تمہاری) لبیں مسواک پر کتر دوں، یا یہ فرمایا کہ۔ لبیں مسواک پر) کتر ڈالو۔ (ترمذی)

تشریح
اس کے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔ یہ اصل میں ذلت و خواری اور فقر و افلاس سے کنایہ ہے اور ایک طرح بد دعا کے مرادف ہے اس جملہ کا استعمال عام طور پر اہل عرب کے ہاں اس شخص کے لئے کیا جاتا ہے جس کو ملامت کرنا مقصود ہوتا ہے اور حقیقت میں اس بددعا کے واقع ہوجانے کی طلب و خواہش نہیں ہوتی بلکہ روز مرہ کے محاورے کے طور پر اس جملہ کو بولتے ہیں اس سے مراد محض شرزنش و ملامت ہوتی ہے چناچہ اس موقعہ پر بھی گویا آنحضرت ﷺ کو یہ ناگوار گزرا کہ جب نماز کا ابھی کافی وقت باقی ہے تو بلال نے کھانے کی مشغولیت کے دوران نماز کے لئے کیوں اٹھانا چاہا اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس جملہ کا استعمال میزبان کی کیفیات و حالات کو دیکھتے ہوئے فرمایا ہو کہ اس وقت یقینا میزبان کو بڑی ذہنی اذیت و کوفت ہوئی ہوگی اس لئے آپ ﷺ نے ان کی طرف سے یا ان کی دلجوئی کے لئے حضرت بلال ؓ پر اس جملہ کے ذریعہ اظہار ناگواری فرمایا۔ اس کی لبیں بڑھی ہوئی تھیں شارحین نے اس جملہ کی وضاحت کئی طرح کی ہے، ایک یہ کہ شاربہ کی ضمیر حدیث کے راوی حضرت مغیرہ ؓ کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں اگرچہ ظاہری اسلوب کا تقاضا یہ تھا کہ یوں کہا جاتا وکان شاربی (اور میری لبیں بڑھی ہوئی تھیں) یعنی ضمیر متکلم کا استعمال ہوتا لیکن اس کے بجائے و شاربہ کہہ کر غائب کی ضمیر استعمال کی اس کی وجہ محض تفنن کلام ہے جس کو اہل معانی کی اصطلاح میں تجرید و التفات کہا جاتا ہے، لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میری لبیں بڑھی ہوئی تھیں، نیز مسواک پر کترنے کا مطلب یہ تھا کہ لبوں کے نیچے مسواک رکھ کر لبوں کو چھری سے کاٹ ڈالوں۔ اور یا یہ فرمایا۔ یہ اصل میں راوی کا اپنے شک کو ظاہر کرنا ہے کہ یا تو آپ ﷺ نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا کہ لبیں مسواک پر رکھ کاٹ ڈالو یعنی آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تمہاری لبیں کاٹوں بلکہ انہیں (حضرت مغیرہ) کو حکم فرمایا کہ خود اپنی لبیں کاٹ ڈالیں۔ شارحین نے دوسری وضاحت یہ بیان کی ہے کہ شاربہ کی ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف راجع کی جائے یعنی حضرت مغیرہ ؓ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی لبیں بڑھی ہوئی تھیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنی لبوں کو تمہارے لئے کتروں گا کہ وہ بال مجھ سے جدا ہو کر تمہارے پاس رہیں اور تم ان سے برکت حاصل کرو، یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مغیرہ ؓ کو حکم دیا کہ تم میری لبوں کے بال کتر دو۔
Top