مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4151
عن عبد الله بن بسر قال : كان للنبي صلى الله عليه وسلم قصعة يحملها أربعة رجال يقال لها : الغراء فلما أضحوا وسجدوا الضحى أتي بتلك القصعة وقد ثرد فيها فالتفوا عليها فلما كثروا جثا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أعرابي : ما هذه الجلسة ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم : إن الله جعلني عبدا كريما ولم يجعلني جبارا عنيدا ثم قال : كلوا من جوانبها ودعوا ذروتها يبارك فيها . رواه أبو داود
کھانا کھاتے وقت زانو کے بل بیٹھنا تواضع وانکساری کی علامت ہے
اور حضرت عبداللہ بن بسر ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے ہاں ایک کٹھڑا (چوبی ناند) تھا جس کو چار آدمی اٹھاتے تھے (یعنی جب اس میں کھانا رکھا جاتا تو وہ اتنا بھاری ہوجاتا تھا کہ اس کو چار آدمی اٹھاتے تھے یا وہ خالی ہی اتنا بڑا بھاری تھا کہ چار آدمیوں کے بغیر نہیں اٹھتا تھا) اس (کٹھڑے) کو غرا کہا جاتا تھا چناچہ جب چاشت کا وقت ہوجاتا اور لوگ چاشت کی نماز پڑھ لیتے تو وہ کٹھڑا لایا جاتا اور اس میں ثرید تیار کیا جاتا، پھر لوگ جمع ہو کر اس کے گرد بیٹھ جاتے، یہاں تک کہ جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی تھی (اور بیٹھنے کی جگہ تنگ ہوجاتی) تو رسول کریم ﷺ گھٹنوں پر بیٹھتے (ایک دن آپ ﷺ کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر) ایک دیہاتی نے کہا کہ یہ نشست کیسی ہے؟ یعنی اس طرح بیٹھنا آپ ﷺ کے شایان شان نہیں ہے۔ (یہ سن کر) نبی کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو تواضع و انکسار کرنے والا بنایا ہے سرکش و ضدی نہیں بنایا ہے۔ (اور طرح بیٹھنا تواضع و انکسار اختیار کرنے کا قریبی راستہ ہے)۔ پھر آپ ﷺ نے (سب کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ اس کے کناروں (یعنی اپنے سامنے) سے کھاؤ اس کی بلندی کو چھوڑ دو یعنی درمیانی حصے کے کھانے پر پہلے ہاتھ نہ ڈالو تمہارے لئے اس میں برکت عطا کی جائے گی۔ (ابوداؤد )

تشریح
غرا کے لغوی معنی ہیں روشن و چمکدار۔ اس بڑے برتن (کٹھڑا یا ناند) کو غرا اس مناسبت سے کہا جاتا تھا کہ وہ بڑا ہونے کی وجہ سے کھلا ہوا اور کشادہ تھا۔ اس میں برکت عطا کی جائے گی کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم اس طرح کھاؤ گے تو یہ اس کٹھڑے کے کھانے میں برکت کا باعث ہوگا اس کے برخلاف جب درمیان کے حصہ سے کھایا جاتا ہے تو نیچے کے حصے سے برکت منقطع ہوجاتی ہے۔
Top