مشکوٰۃ المصابیح - معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان - حدیث نمبر 4942
وعن عائشة قالت اعتل بعير لصفية وعند زينب فضل ظهر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لزينب أعطيها بعيرا . فقالت أنا أعطي تلك اليهودية ؟ فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرها ذا الحجة والمحرم وبعض صفر . رواه أبو داود . وذكر حديث معاذ بن أنس من حمى مؤمنا في باب الشفقة والرحمة
ایک زوجہ مطہرہ کی بد گوئی اور آنحضرت ﷺ کی ناراضگی
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ صفیہ ؓ کا اونٹ بیمار ہوگیا اس وقت زینب کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ سواری تھی یعنی ان کے پاس ایک اونٹ ضرورت سے زیادہ تھا لہذا رسول اللہ ﷺ نے زینب سے فرمایا کہ تم اپنا وہ اونٹ صفیہ ؓ کو دے دو زینب ؓ نے جواب دیا کہ بھلا میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ دوں گی، یعنی انہوں نے صفیہ ؓ کو اپنا اونٹ دینے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ ان کے بارے میں نازیبا الفاظ بھی بیان کئے چناچہ رسول اللہ ان سے سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ آپ نے ذی الحجہ اور محرم کے پورے مہینے اور ماہ صفر کے کچھ دنوں تک ان سے ملنا جلنا چھوڑے رکھا (ابوداؤد) اور حضرت معاذ بن انس ؓ کی روایت من حمی مومناالخ باب الشفعہ میں نقل کی جا چکی ہے۔

تشریح
حضرت صفیہ ؓ ایک یہودی حی بن اخطب کا سلسلہ نسب چونکہ اوپر جا کر حضرت ہارون (علیہ السلام) سے مل جاتا تھا اس لئے ان کو ایک پیغمبر یعنی حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولا میں سے ہونے کا نسبی شرف بھی حاصل تھا حضرت صفیہ ؓ کی پہلی شادی ایک یہودی ابوالحقیق سے ہوئی تھی جب جنگ خیبر میں وہ مارا گیا اور صفیہ قیدی بن کر بارگاہ رسالت میں لائی گئیں تو حضور ﷺ نے ان کو رہا کردیا اور پھر ان سے عقد کرلیا آنحضرت ﷺ کی بعض ازواج ان کو ناپسند کرتی تھیں اور خود حضرت عائشہ ؓ بھی انہیں میں سے تھیں لیکن آنحضرت ﷺ کو دوسری ازواج کی طرح ان سے بھی برابر کا تعلق تھا اور ان کی حمایت و رعایت کرتے تھے ایک دن حضرت عائشہ ؓ نے کسی بات پر حضرت صفیہ ؓ کو یہودیہ کہا اور کچھ سخت سست بھی کہا انہوں نے آنحضرت ﷺ سے شکایت کی حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم عائشہ ؓ سے کہو کہ تم ابوبکر کی بیٹی ہو اور میں پیغمبر زادی ہوں۔ حضرت زینب ؓ بھی آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں پہلے ان کا نام برہ تھا اور پہلی شادی عبداللہ ابن زمعہ سے ہوئی تھی جب یہ حضور ﷺ کے عقد میں آئیں تو آپ نے ان کا نام زینب ؓ رکھا۔ اس حدیث سے یہ بات تو معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو اس کی گزشتہ زندگی کے تعلق کا طعنہ دینا اس کی حقارت کرنا نہایت نازیبا بات ہے دوسری بات یہ کہ آنحضرت ﷺ حضرت زینب ؓ کی بد گوئی پر ان سے سخت ناراض ہوئے اور ایک طویل عرصہ تک ان سے ترک ملاقات اختیار کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی شرعی مصلحت کی بنا پر کسی مسلمان سے تین دن سے زائد بھی ترک ملاقات کی جاسکتی ہے مثلا اگر کوئی شخص کسی قبیح فعل کا مرتکب ہو تو اس کی تادیب کی خاطر نہ کہ کسی بغض و عداوت کی خاطر اس سے تین دن سے زیادہ بھی ملنا جلنا چھوڑے رکھنا جائز ہے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے۔
Top