مشکوٰۃ المصابیح - غصہ اور تکبر کا بیان - حدیث نمبر 4985
وعن معاذ قال كان آخر ما وصاني به رسول الله صلى الله عليه وسلم حين وضعت رجلي في الغرز أن قال يا معاذ أحسن خلقك للناس . رواه مالك
خوش خلقی کی اہمیت
اور حضرت معاذ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جن باتوں کی نصیحت و وصیت فرمائی ان میں سب سے آخری وصیت جو آپ نے اس وقت فرمائی جب کہ میں نے (گھوڑے پر سوار ہونے کے لئے اپنا پاؤں رکھا تھا یہ تھی کہ معاذ لوگوں کی تربیت وتعلیم کے لئے خوش خلقی اختیار کرنا۔ (مالک)

تشریح
نبی کریم ﷺ نے اپنے زمانہ حیات میں حضرت معاذ ؓ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا چناچہ جب حضرت معاذ ؓ اپنا منصب سنبھالنے کے لئے یمن روانہ ہونے لگے تو حضور نے ان کو بہت سی نصیحتیں فرمائیں گھوڑے پر سوار کرایا اور رخصت کرنے کے لئے خود پاپیادہ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اس وقت نبی کریم ﷺ نے ان سے یہ الفاظ بھی فرمائے کہ معاذ، شاید تم پھر مجھے نہ دیکھ پاؤ چناچہ معاذ کو اس کے بعد سرکار رسالت پناہ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی، وہ یمن ہی میں تھے کہ نبی کریم ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا، بہرحال حضرت معاذ ؓ نے مذکورہ بالا روایت میں نبی کریم ﷺ کی جس وصیت کا ذکر کیا ہے وہ اسی موقع پر ان کے لئے نبی کریم ﷺ کی آخری نصیحت تھی۔ سیوطی کہتے ہیں کہ یہاں لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوش خلقی اور نرمی و مہربانی کے مستحق ہوں ورنہ جہاں تک اہل کفر و فسق اور ظالموں کا تعلق ہے وہ اس دائرہ سے خارج ہیں اور ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا حکم ہے بلکہ سرکش لوگوں کے ساتھ اختیار کی جانے والی سختی درشتی کو ظاہر کرنا ہی حسن خلق میں داخل ہے کیونکہ نہ صرف ان کی تربیت و تہذیب اسی سختی و درشتی پر منحصر ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ اختیار کئے جانے والے اس رویہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کے حالات کی بہتری و سلامتی بھی وابستہ ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ سیوطی کے نزدیک گویا حدیث میں حسن خوش خلقی سے مراد نرمی و مہربانی اور عفو درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔
Top