مشکوٰۃ المصابیح - فقراء کی فضیلت اور نبی ﷺ کی معاشی زندگی - حدیث نمبر 4993
عن أبي هريرة أن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم أوصني . قال لا تغضب . فرد ذلك مرارا قال لا تغضب . رواه البخاري
غصہ سے اجتناب کی تاکید
اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے عرض کیا مجھے کوئی نصیحت فرما دیجیے تاکہ میں اس پر عمل کر کے دین و دنیا کی بھلائی حاصل کروں آپ نے فرمایا غصہ مت کرو، اس شخص نے یہ بات کہ آپ مجھے کوئی نصیحت فرما دیں کئی مرتبہ کہی اور آپ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کرو۔ (بخاری)

تشریح
چونکہ اس شخص میں غصہ کا مادہ زیادہ تھا اس لئے اس نے جتنی مرتبہ بھی یہ درخواست کی کہ مجھ کوئی نصیحت فرما دیجیے آپ نے یہی جواب دیا کہ غصہ مت کیا کرو چناچہ نبی کریم ﷺ کا معمول یہی تھا کہ سوال کرنے والا جس حالت و کیفیت کا حامل ہوتا اس کو جواب اسی حالت و کیفیت کے مطابق ارشاد فرماتے اور ہر ایک کے مرض کا علاج اس کے احوال کی مناسبت سے تجویز فرماتے اسی لئے آپ نے اس شخص کے حق میں اجتناب کے حکم کو بار بار ظاہر کرنا ہی مناسب جانا۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ غضب و غصہ کی حالت دراصل شیطانی وسوسوں سے پیدا ہوتی ہے جس کے سبب انسان ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی اعتدال کی راہ سے گزر جاتا ہے اور شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے چناچہ اس حالت میں وہ نہ صرف اس طرح اول فول بکنے لگتا ہے اور ایسے افعال و حرکات کا ارتکاب کرتا ہے جو شرعی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نہایت برے اور نازیبا ہوتے ہیں بلکہ دل میں کینہ اور بغض بھی رکھتا ہے اس کے علاوہ ایسی اور بہت سی چیزیں اس سے صادر ہوتی ہیں جو بدخلقی وبد خوئی کی نشانیاں ہیں اور بسا اوقات تو غصہ کرنے والا اس درجہ مغلوب الغضب ہوجاتا ہے کہ اس سے کفر تک سرزد ہوجاتا ہے اس حقیقت سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ غضب و غصہ چونکہ انسان کو دین و دنیا کے سخت ترین نقصان میں مبتلا کردیتا ہے اس لئے آپ نے مذکورہ شخص کے بار بار عرض گزار ہونے کے باوجود بس ایک ہی نصیحت کی کہ غصہ مت کرو اور ہر مرتبہ اسی کی تاکید کی گویا آپ نے اس کو یہ تعلیم ارشاد فرمائی کہ غصہ کا تعلق بد خلقی سے ہے اور بد خلقی محض ایک ہی برائی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے نہ معلوم کتنی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور کتنے ہی نقصانات کرنا پڑتے ہیں لہذا غصہ سے اجتناب و پرہیز کر کے خوش خلقی اختیار کرو جو دین و دنیا کی بھلائیوں اور دارین کی سعادتوں کی ضامن ہے۔ ایک بات یہ جان لینی چاہیے کہ غصہ کا علاج بھی تجویز کیا ہے جو علم و عمل یا ظاہر و باطن کا مرکب ہے چناچہ اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آجائے جو غصہ کا سبب ہو تو اس صورت میں علمی یا باطنی و قلبی علاج یہ ہے کہ دل میں یہ تصور کرے اور اس پر یقین رکھے کہ کوئی کام اللہ کے ارادہ و تقدیر کے بغیر نہیں ہوتا جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، نفع نقصان سب اسی کے اختیار میں ہے، انسان تو ظاہر میں ایک آلہ ہے جس شخص کی طرف سے کوئی نقصان یا تکلیف پہنچے اس پر غصہ ہونا ایسا ہے جیسے کوئی شخص چھری یا چاقو پر غصہ ہو کر اس نے کیوں کاٹا علاوہ ازیں اپنے نفس کو سمجھائے کہ دیکھ اللہ تعالیٰ کس قدر قادر ہے اور اس کا غضب کتنا ہی شدید ہے مگر اس کے باوجود وہ درگزر کرتا ہے بندے اس کی کسی طرح مخالفت کرتے ہیں اور اس کے احکام سے کس طرح سرکشی اختیار کرتے ہیں لیکن وہ ان پر غضب نازل نہیں کرتا ہے پھر تو اتنا بڑا کہاں آیا کہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا دوسرا علاج جو عملی یا ظاہری ہے وہ یہ کہ فورا وضو کر ڈالے اور اعوذ پڑھنے لگے تاکہ پانی ٹھنڈک، غصہ کی حرارت کو فرد کر دے اور نفس دوسری طرف مشغول ہوجائے۔
Top