مشکوٰۃ المصابیح - فقراء کی فضیلت اور نبی ﷺ کی معاشی زندگی - حدیث نمبر 4994
وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس الشديد بالصرعة إنما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب . متفق عليه
طاقتور شخص
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور اور پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو پچھاڑ دے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اصل میں اگر کوئی چیز انسان کی سب سے بڑی دشمن اور اس کے مقابلہ میں سب سے زیادہ طاقتور ہے تو وہ خود اس کا نفس ہے اگر کوئی شخص بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑتا رہا اور اپنے آپ کو طاقتور ترین دشمن کو بھی زیر کرتا رہا مگر خود اپنے نفس پر غالب نہیں آسکا تو یہ کوئی کمال نہیں ہے اصل کمال تو یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو زیر کرے جو اس کا اصل دشمن ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے، تمہارے دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔ واضح رہے کہ بدن کی قوت ظاہری اور جسمانی ہے جو زوال پذیر اور فنا ہوجانے والی ہے اس کے برخلاف جو قوت نفس کو زیر کرتی ہے وہ دینی اور روحانی ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور ہمیشہ باقی رہتی ہے لہذا نفس امارہ کو مارنا وصف اور کمال کی بات ہے کہ جب کہ آدمی کو پچھاڑنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ مردے نہ بقوت بازو ست دزور کتف بانفس اگر بائی دانم کہ شاطرے
Top