مشکوٰۃ المصابیح - فقراء کی فضیلت اور نبی ﷺ کی معاشی زندگی - حدیث نمبر 5005
عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما تجرع عبد أفضل عند الله عز وجل من جرعة غيظ يكظمها اتبغاء وجه الله تعالى . رواه أحمد وعن ابن عباس في قوله تعالى ( ادفع بالتي هي أحسن ) قال الصبر عند الغضب والعفو عند الإساءة فإذا فعلوا عصمهم الله وخضع لهم عدوهم كأنه ولي حميم قريب . رواه البخاري تعليقا
غصہ کو ضبط کرو
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کسی چیز کا ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیتا جو اللہ کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پینے سے بہتر ہو جس کو وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے پی جاتا ہے۔ (احمد) اور حضرت ابن عباس ؓ اللہ کے اس ارشاد آیت (ادفع بالتی)۔۔۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ غصہ کے وقت صبر کرنا اور برائی کے وقت عفو درگزر کرنا اس ارشاد الٰہی کی مراد ہے لہذا جب صبر و عفو کرتے ہیں تو اللہ ان کو نفس اور مخلوقات کی آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کے دشمن اس طرح پست ہوجاتے ہیں جیسے وہ بہت قریبی دوست ہوں اس روایت کو بخاری نے بطریق تعلیل نقل کیا ہے۔

تشریح
روایت میں آیت کا جو ٹکڑا نقل کیا گیا ہے وہ اپنے سیاق وسباق کے ساتھ اس طرح ہے آیت (ولاتستوی الحسنۃ ولاالسیئیۃ ادفع باللتی)۔۔۔۔۔ گویا آیت کی تعلیم یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے بلکہ برائی کا بدلہ نیکی ہے لہذا اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے تم اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ اور اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ برائی بھلائی کے ذریعہ دفع کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو صبر تحمل اختیار کرو اور اگر کسی سے کوئی برائی اور تکلیف پہنچے تو اس سے عفو و درگزر کرو۔ لفظ قریب دراصل لفظ حمیم کی تفسیر ہے جس سے قرابتی مراد ہے اور یہ جملہ مذکورہ آیت کے اس آخری جزء کی تفسیر ہے ا یت (فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ) 41۔ فصلت 34)۔ یعنی پھر اچانک تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کہ کوئی قریبی دوست ہے۔
Top