مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5130
وعن عمر قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو مضطجع على رمال حصير ليس بينه وبينه فراش قد أثر الرمال بجنبه متكئا على وسادة من أدم حشوها ليف . قلت يا رسول الله ادع الله فليوسع على أمتك فإن فارس والروم قد وسع عليهم وهم لا يعبدون الله . فقال أو في هذا أنت يا ابن الخطاب ؟ أولئك قوم عجلت لهم طيبتاتهم في الحياة الدنيا . وفي رواية أما ترضى أن تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة ؟ . متفق عليه
دنیا کی طلب مومن کی شان نہیں
حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور ﷺ کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ ﷺ کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور ﷺ کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے بدھیاں ڈال دی تھیں، نیز آپ ﷺ نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رک رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے (سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کرتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ابن خطاب! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو ( جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو؟ یاد رکھو یہ اہل فارس و روم (اور تمام کفار) وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں (جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کیا تم اس پر راضی و مطمئن نہیں ہو کہ ان (اہل فارس و روم اور دیگر کفار) کو دنیا ملے (جو فنا ہوجانے والی ہے) اور ہمیں آخرت ملے (جو اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے یعنی وہی چٹائی سرکار دو عالم ﷺ کا بستر تھا جس کو چارپائی پر ڈال کر اس پر آپ لیٹے ہوئے تھے یا وہ چٹائی زمین پر بچھی ہوئی تھی اور آپ ﷺ اسی کھری چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے اور بعض عبارتوں سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی جو چارپائی تھی وہی کھجور کی رسیوں سے بنی ہوئی تھی جیسا کہ چارپائیوں کو بان سے بنا جاتا ہے۔ رمال راء کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ اصل میں رمل کی جمع ہے اور مرمول (یعنی بنے ہوئے کے) معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ مخلوق کے معنی میں خلق استعمال ہوتا ہے۔ لیف (لام کے زیر اور راء کے جزم کے ساتھ) کھجور کی چھال کو کہتے ہیں! حاصل یہ کہ حضور ﷺ کا جو تکیہ مبارک تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں روئی وغیرہ کے بجائے کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، چناچہ جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں، روئی وغیرہ کا تکیہ بنانا ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ کھجور کی چھال کو کوٹ کر نرم کرلیتے ہیں اور اس کو تکیہ میں بھر لیتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے امت کے حق میں مالی وسعت اور رزق کی فراخی کی دعا کے لئے حضور ﷺ سے جو درخواست کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اگر پوری امت بھی اسی فقر و افلاس میں مبتلا رہی اور اس کو معاشی زندگی کی غرب و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس امت کے وہ لوگ جو مضبوط عقیدہ و مزاج کے نہیں ہوں گے، اتنی سخت زندگی کی تاب نہیں رکھ پائیں گے اور ناقابل برداشت دشواریوں میں مبتلا ہوجائیں گے لہٰذا انہوں نے ایسے لوگوں کے مناسب حال یہی جانا کہ انہیں مالی وسعت و فراخی عطا ہوجائے۔ لیکن طیبی (رح) یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا اصل مقصد خود حضور ﷺ کی ذات کے لئے مالی وسعت و فراخی کی خواہش کرنا تھا، مگر انہوں نے اس بات کو آنحضرت ﷺ کی شان عظمت کے مناسب نہیں سمجھا کہ براہ راست حضور ﷺ کے لئے اس ادنیٰ اور ناپاک دنیا کی طلب کو ظاہر کریں، جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک نہایت گرم اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں انہوں نے کوٹھڑی کے کونوں میں نظر دوڑائی تو دیکھا کہ بس چمڑے کے دو چار ٹکڑے اور ایک دو باسن پڑے ہوئے ہیں، حضور ﷺ کی غربت و خستہ حالی کا یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر ؓ رونے لگے، حضور ﷺ نے پوچھا کہ ابن خطاب کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ﷺ حضور کی حالت دیکھ کر رو رہا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہوتے ہوئے اس حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور قیصر و کسری (جو اللہ کے نافرمان و سرکش بندے ہیں) کس قدر ناز و نعم اور عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد روایت کے وہی الفاظ ہیں جو او فی ہذا یا بن الخطاب سے آخرت، اوپر حدیث میں نقل ہوئے طیبی کی یہ وضاحت بھی اگرچہ حقیقت کے بہت زیادہ قریب ہے لیکن خود حضرت عمر ؓ کے الفاظ فان فارس و روم قد وسع علیہم کے پیش نظر پہلی توضیح زیادہ مناسب ہے۔
Top