مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5142
وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد أخفت في الله وما يخاف أحد ولقد أوذيت في الله وما يؤذى أحد ولقد أتت علي ثلاثون من بين ليلة ويوم وما لي ولبلال طعام يأكله ذو كبد إلا شيء يواريه إبط بلال . رواه الترمذي قال ومعنى هذا الحديث حين خرج النبي صلى الله عليه وسلم هاربا من مكة ومعه بلال إنما كان مع بلال من الطعام ما يحمل تحت إبطه
دعوت اسلام کی راہ میں حضور ﷺ کو پیش آنے والے فقر و فاقہ اور آفات و آلام کا ذکر
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کے دین کو ظاہر کرنے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کی راہ میں جس قدر مجھ کو خوف و دہشت میں مبتلا کیا گیا اس قدر کسی اور کو خوف و دہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا اور اللہ کے دین کی راہ میں جتنی ایذاء رسانیوں سے میں دوچار ہوا ہوں اتنی ایذاء رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا ہے (یعنی ابتداء میں جب میں نے اسلام کی دعوت پیش کی اور اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت کا اظہار و اعلان کیا تو اس وقت میں بالکل تنہا تھا، کوئی اور شخص میرے ساتھ نہیں تھا، چناچہ اس راہ میں پیش آنے والے تمام تر مصائب و آلام اور ہر طرح کی دہشت انگیزی کو برداشت کرنے والا واحد شخص میں تھا) بلاشبہ مجھ پر متواتر تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزری ہیں جن میں میرے اور بلال کے لئے کھانے پینے کا ایسا کوئی سامان نہیں تھا جس کو کوئی جگردار (یعنی حیوان) کھاتا ہے (یعنی ان دنوں ہم دونوں کے پاس کھانے کی ان چیزوں میں سے بھی کوئی چیز نہیں تھی جس کو جانور کھاتے ہیں چہ جائیکہ آدمیوں کے کھانے پینے کی کوئی چیز ہوتی) علاوہ اس نہایت معمولی سی چیز کے جس کو بلال اپنی بغل میں چھپائے رہتے تھے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کو انسان اپنی بغل میں دبالے اس کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ باہر سے یہ نظر بھی نہ آئے کہ بغل میں کیا چیز ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث میں حضور ﷺ نے جو صورت حال بیان فرمائی ہے اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب حضور ﷺ مکہ سے نکلنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال ؓ تھے۔ نیز حضرت بلال ؓ کے پاس کھانے کی چیزوں میں سے صرف اتنا تھا جس کو وہ اپنی بغل میں دبائے رہتے تھے۔

تشریح
حدیث کے ابتدائی جملوں کی وضاحت طیبی نے وہی کی ہے جو ترجمہ میں (بین القوسین) نقل کی گئی ہے۔ لکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس قدر کسی اور کو خوف و دہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا اور اتنی زیادہ ایذاء رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اللہ کا دین پہنچانے کی راہ میں جس قدر خوف و دہشت میں مجھے مبتلا کیا گیا ہے اور جس قدر اذیتیں اور تکلیفیں میں نے برداشت کی ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ مااوذی نبی مثل ما اوذیت (یعنی جتنی زیادہ ایذاء مجھے پہنچائی گئی ہے اتنی زیادہ کسی اور نبی کو نہیں پہنچائی گئی) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل اللہ کے دین کی راہ میں ایذاء اور تکلیف کا پہنچانا ہر شخص کی ہمت و حیثیت اور مرتبہ کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ سرکار دو عالم ﷺ کی ہمت و حیثیت سب سے زیادہ بلند تھی۔ آپ ﷺ کا مرتبہ سب سے اونچا تھا آپ ﷺ کی صداقت و حقانیت سب سے زیادہ واضح تھی۔ اور ایمان کو پھیلانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی تمنا و خواہش اور اس کے تئیں سعی تڑپ سب سے زیادہ آپ ﷺ میں تھی اس لئے اس راہ میں سب سے زیادہ ایذاء رسانی اور مصائب کا سامنا بھی آپ ہی کو کرنا پڑا۔ آیت (ولقد اتت علی) الخ سے حضور ﷺ نے اپنے فقر و فاقہ کے انتہائی شدید وسخت دنوں کا ذکر جس انداز میں فرمایا اس سے ایک تو ان سخت مصائب و آلام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جن سے آپ ﷺ کو دعوت اسلام کی راہ میں دوچار ہونا پڑا اور ظاہر ہے کہ فقر و فاقہ سے زیادہ سخت اور کوئی مشقت نہیں ہوسکتی اور دوسرے اصل مقصد امت کے لوگوں کو تعلیم و تلقیں تھا کہ اللہ کے دین کی راہ میں اگر بڑی سے بڑی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑے تو اس کو بطیب خاطر انگیز کیا جائے اور بہر صورت راہ استقامت پر گامزن رہا جائے۔ امام ترمذی نے جو یہ کہا ہے کہ اور اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ کی بیان فرمودہ صورت حال کا تعلق اس وقت سے نہیں جب کہ آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت فرمائی تھی کیونکہ اس وقت حضور ﷺ کے ساتھ حضرت بلال نہیں تھے۔ بلکہ یہ واقعہ غالباً اس وقت کا ہے جب آپ ابتدائے اسلام میں مکہ سے طائف تشریف لے گئے تھے چناچہ نبوت کا دسواں سال تھا اور شوال کا مہینہ کہ آپ کے چچا ابوطالب کی وفات ہوگئی۔ اور پھر تین دن بعد یا پانچ دن کے بعد ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں، یہ دونوں سانحے حضور ﷺ کے لئے نہایت سخت تھے اسی لئے آپ ﷺ نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا۔ قریش مکہ جو پہلے ہی آپ ﷺ کو طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنا رہے تھے، اب ان دونوں، ہستیوں خصوصاً ابوطالب کی وفات کے بعد ان کو اپنی جابرانہ کاروائیوں کا موقع مل گیا، چناچہ انہوں نے آپ ﷺ کی ایذاء رسانی میں بڑی شدت پیدا کردی، ادھر جب آپ ﷺ کو اہل مکہ کے قبول اسلام سے مایوسی کی صورت پیدا ہونے لگی تو اسی سال یعنی ١٠ نبوی، آخر ماہ شوال میں آپ حضرت زید بن حارثہ ؓ کو ساتھ لے کر پیادہ پا مکہ سے طائف تشریف ہے گئے اور اہل طائف کو کلمہ حق کی طرف دعوت دی اور متواتر ایک ماہ تک ان کی تبلیغ و ہدایت میں مصروف رہے، مگر انہوں نے آپ کی ایک بات نہیں سنی اور کسی ایک شخص کو بھی قبول حق کی توفیق نہیں ہوئی، بلکہ ظالموں نے اپنے بچوں اور اوباش لوگوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ جس قدر ہو سکے آپ ﷺ کو ایذاء پہنچائیں چناچہ ان بدبختوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسانے شروع کئے جس سے سردار دو عالم ﷺ کے قدم شریف زخمی ہوجاتے تھے اور اتنا خون بہتا تھا کہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک اس سے بھر جاتے تھے، جب آپ ﷺ پتھر کے زخموں سے چور ہو کر گرپڑتے تھے تو وہ لوگ آپ ﷺ کے دونوں بازو پکڑ کر کھڑا کردیتے تھے اور آپ ﷺ آگے چلتے تو پھر پتھراؤ شروع کردیتے تھے اور خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور قہق ہے لگاتے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ جس طرف سے پتھر آتا ہوا دیکھتے اس طرف خود کھڑے ہو کر آنحضرت ﷺ کو بچاتے اور پتھر کو اپنے سر پر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت زید ؓ کا سر بھی پتھروں کے زخم سے چور چور ہوگیا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جو آپ ﷺ پر سایہ فگن ہوگیا اور پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک اور فرشتے کے ساتھ حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے پروردگار نے آپ ﷺ کی قوم کی ساری باتیں سنیں اور آپ ﷺ کے ساتھ جو کچھ سلوک انہوں نے کیا ہے اس کو دیکھا، میرے ساتھ یہ وہ فرشتہ ہے جس کے سپرد پہاڑوں کی خدمت ہے، اللہ پاک کا اس کو حکم ہے کہ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو طائف کے گرد کی دونوں پہاڑیاں باہم ٹکرا دی جائیں۔ اور ان دونوں کے درمیان اہل طائف کو اس طرح دل دیا جائے جس طرح چکی کے دو پاٹوں میں دانہ دل جاتا ہے۔ رحمت عالم ﷺ کسی انتقامی کاروائی کی اجازت دے دیتے، یہ کیسے ممکن تھا؟ چناچہ آپ ﷺ نے اس امر کی اجازت نہیں دی اور بارگاہ رب العزت میں یوں گویا ہوئے۔ ارحم الراحمین! تو نے مجھ کو سخت دل اور انتقام کا خو گر نہیں بنایا، میں لوگوں پر تیرے عذاب نازل کرانے نہیں آیا ہوں، مجھے اپنی قوم کے ہلاک و تباہ ہونے کا سبب نہ بنا، اگر یہ نیست نابود ہوگئے تو اس سے مجھے کیا حاصل ہوگا، ہاں اگر یہ زندہ رہے تو امید ہے کہ شاید ان کی نسلوں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو تیری وحدانیت کے ساتھ پرستش کریں اور تیرے دین کا جھنڈہ بلند کریں! پروردگار یہ میرے مرتبہ سے ناواقف ہیں، ان کی آنکھوں پر جہل و نادانی کی پٹی بندھی ہوئی ہے، اگر تو ان کو وہ بینائی عطا فرما دے جس سے یہ میری شان پیغمبر دیکھ لیں تو امید ہے کہ ایمان سے مشرف ہوجائیں۔ بالآخر رحمت عالم ﷺ ایک ماہ بعد طائف سے اس طرح واپس ہوئے کہ فقر و فاقہ کے تعب اور ایذاء رسانیوں کے زخم سے جسم نڈھال تھا اور آپ ﷺ کے ٹخنے شریف لہو لہان تھے، مگر زبان پر حرف بد دعا کے بجائے دعائے ہدایت کے الفاظ تھے۔ سفر طائف کا یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ تاریخ و سیر کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے یہاں اس کا ذکر اجمالی طور پر کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ روایت کے آخر میں اس طرف اشارہ ہے۔ رہی یہ بات کہ حدیث میں اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت بلال ؓ کا ہونا مذکور ہے، جب کہ مذکورہ بالا واقعہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں کیونکہ اغلب ہے کہ حضرت بلال اور حضرت زید بن حارثہ ؓ دونوں ہی آپ ﷺ کے ساتھ رہے ہوں گے، تاہم تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس موقعہ پر حضرت زید بن حارثہ ؓ کا ہی ہونا ذکر کیا جاتا ہے۔
Top