مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5215
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من كانت نيته طلب الآخرة جعل الله غناه في قلبه وجمع له شمله وأتته الدنيا وهي راغمة ومن كانت نيته طلب الدنيا جعل الله الفقر بين عينيه وشتت عليه أمره ولا يأتيه منها إلا ما كتب له . رواه الترمذي ورواه أحمد . والدارمي عن أبان عن زيد بن ثابت .
نیت کے اخلاص وعدم اخلاص کا اثر
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص کی نیت محض آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی اور اس کی پریشانیوں کو جمع کر کے اطمینان خاطر بخشتا ہے نیز اس کے پاس دنیا آتی ہے لیکن اس کی نظر میں اس دنیا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ یعنی کسی بھی علمی یا عملی کار خیر کو اختیار کرنے کے سلسلے میں جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، محض رضائے مولیٰ اور ثواب آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو قدر کفایت پر قانع و صابر بتا کر اور زیادہ طلبی کی محنت ومشقت کے کشت ورنج سے بچا کر قلبی غنا عطا کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس بات سے بےنیاز اور مستغنی ہوجاتا ہے کہ ریاء کاری کے ذریعہ لوگوں سے مال وجاہ اور عزت و منفعت حاصل کر کے آخرت کا نقصان و خسران مول لے۔ نیز اللہ تعالیٰ حصول معاش اور ضروریات زندگی کی تکمیل کے سلسلے میں ان کی پریشانیوں، الجھنوں اور ذہنی انتشار وتفکرات کو سمیٹ کر خاطر جمعی میں تبدیل کردیتا ہے، بایں طور کہ اس کو ایسی جگہوں اور ایسے ذرائع سے اسباب معیشت مہیا فرما دیتا ہے جن کے بارے میں اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور اس کے معاملات کو اس طرح استوار فرما دیتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی اس کو نہیں ہوتا اور پھر ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر یہ ہے ہوتا ہے کہ اس شخص کی نظر میں دنیا اور دنیا بھر کی نعمتیں اور لذتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، وہ دنیا سے دامن بچاتا ہے اور دنیا اس کے قدموں میں کھنچی چلی آتی ہے، اس کی ضروریات زندگی اور معیشت کے وہ اسباب جو اس کے لئے مقدر ہیں، بغیر کسی محنت ومشقت کے بغیر کسی سعی و کوشش کے اور بغیر کسی ذلت و خواری کے اس کو حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ اور جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، دنیا کی طلب ہو یعنی جس شخص پر دنیا اس حد تک سوار ہوجائے کہ وہ اعمال خیر کو بھی محض دنیا کے حصول کا واسطہ بنانا شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کا فقر و احتیاج، اس کی آنکھوں کے سامنے پیش کردیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت و خواری میں مبتلا کردیتا ہے اور وہ اپنے فقر و افلاس اور محتاجگی کو نظر آنے والی چیز کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے۔ اور اس کو ہر معاملہ میں پراگندہ خاطر اور ذہنی انتشار و تفکرات کا شکار بنا دیتا ہے نیز دنیا بھی اس کو صرف اسی قدر ملتی ہے جتنا کہ اللہ نے اس کے لئے مقدر کردیا ہے (ترمذی) نیز احمد اور دارمی نے اس روایت کو ابان سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اعمال کے نتائج و آثار ہونے کا مدار نیت پر ہے، جس شخص کے پیش نظر صرف آخرت کا مفاد ہوتا ہے اور جو اپنے اعمال کے تئیں مخلص وصادق ہوتا ہے، وہ آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں کا مستحق تو ہو ہی جاتا ہے، اس دنیا میں بھی اس کو اپنے تمام معاملات زندگی میں اطمینان و عافیت اور خاطر جمعی کی دولت حاصل رہتی ہے، نیز اس کو اس کا رزق نہایت آسانی اور آسودگی کے ساتھ پہنچتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص محض دنیا کی طلب وچاہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال کو وسیلہ آخرت بنانے کے بجائے دنیاوی مال وزر اور دنیاوی نعمتوں کا وسیلہ و ذریعہ بناتا ہے اس کو آخرت میں تو اس کی سزا بھگتنی ہوگی، اس دنیا میں بھی اس پر اس برائی کا یہ وبال پڑتا ہے کہ وہ خاطر جمع اور اطمینان و سکون کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے، ہر وقت طرح طرح کی پریشانیوں اور مختلف تفکرات کی وجہ سے حیران وسرگردان رہتا ہے، نیز اس کو وہ رزق تو ضرور ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہے مگر اس کے حصول کے لئے بھی اس کو نہایت محنت ومشقت اور پریشانی وکشت برداشت کرنا پڑتی ہے۔
Top