مشکوٰۃ المصابیح - رونے اور ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 5224
وعن معاذ بن جبل أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يكون في آخر الزمان أقوام إخوان العلانية أعداء السريرة . فقيل يا رسول الله وكيف يكون ذلك . قال ذلك برغبة بعضهم إلى بعض ورهبة بعضهم من بعض .
ریا کار لوگوں کے بارے میں پیشگوئی
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں ایسی قومیں اور جماعتیں بھی پیدا ہوں گی جو ظاہر میں تو درست ثابت ہوں گی مگر باطن میں دشمنی کریں گے۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیونکر اور کس سبب سے ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ ان میں سے بعض بعض سے غرض و لالچ رکھیں گے اور بعض بعض سے خوف زدہ ہوں گے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہوگی جو اپنی دنیاوی اغراض اور ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے منافقت اور ریاء کاری اختیار کریں گے اور صدق و اخلاص سے محروم رہیں گے نہ ان کی دوستی کا بھروسہ ہوگا اور نہ ان کی دشمنی کا جس شخص و طبقہ سے ان کی کوئی غرض وابستہ ہوگی اس کی طرف رغبت و التفات رکھیں گے اور اس کے حق میں دوستی کا اظہار کریں گے۔ اگر کسی غرض ومفاد کا واسطہ درمیان میں نہیں ہوگا تو بیگانہ بن جائیں، بلکہ غرض ومفاد حاصل نہ ہونے کی صورت میں دشمنی وعدات پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ اس سے واضح ہوا کہ شریعت کا جو یہ حکم ہے کہ مسلمان کی دوستی و دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے تو مذکورہ لوگ اس مرتبہ سے گزرے ہوئے ہوں گے، کیونکہ ان کی دوستی و دشمنی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بجائے ذاتی اغراض فاسدہ اور مذموم مقاصد سے ہوگا چناچہ جب وہ اپنے اغراض اور اپنے مفاد کے تحت کسی فرد یا جامعت کی طرف رغبت والتفات رکھیں گے تو اس کے تئیں دوستی والفت ظاہر کریں گے اور جب کسی وجہ سے کسی فرد یا جماعت کو ناپسند کریں گے تو ان کے خلاف بغض و عداوت ظاہر کریں گے۔ پس نہ تو لوگوں کے تئیں ان کی دوستی کا اعتبار ہوگا اور نہ ان کی عداوت کا، کیونکہ ان کی دوستی اور عداوت دونوں کی بنیاد، صدق و اخلاص اور پاکیز اغراض و مقاصد کے بجائے، ذاتی اغراض و خواہشات اور نفع نقصان پر ہوگی۔
Top