مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 5234
عن أبي هريرة قال قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لو تعلمون ما أعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا . رواه البخاري .
زیادہ ہنسنا آخرت کی ہولنا کیوں سے بے فکر کی علامت ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم (محمد) ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم اس چیز کو جان لو جس کو میں جانتا ہوں تو یقینا تمہارا رونا زیادہ اور ہنسنا کم ہوجائے (یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکیاں، مبدأ و معاد کی حقیقت گنہگاروں کے تئیں اللہ تعالیٰ کا عتاب و عذاب یوم حساب کی شدت پرسش اور باری تعالیٰ کی صفات قہریہ وجلالیہ کو، جو خوف مصیبت کا باعث ہیں جس قدر میں جانتا ہوں اور پھر ان چیزوں کے تعلق سے تمہارے انجام کار کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل پر ہر وقت غم وخوف طاری رہتا ہے اگر تم بھی ان سب چیزوں سے پوری طرح آگاہ ہوجاؤ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خوف وہیبت کے مارے تم ہنسنا بھول جاؤ اور اپنا زیادہ وقت رونے اور غم کھانے میں صرف کرو، کیونکہ اس صورت میں تم رجا یعنی رحمت الٰہی کی امید کے مقابلہ پر عذاب الٰہی کے خوف کو زیادہ ترجیح دینے لگو)۔ (بخاری)

تشریح
اس ارشاد گرامی میں امت کے لئے ایک تنبیہ تو یہ ہے کہ اپنے اوپر گریہ طاری رکھنا چاہئے اور ان چیزوں کی یاد تازہ رکھنی چاہئے جو رونے وہلانے اور غم کھانے کا باعث ہوتی ہیں جیسے خوف الٰہی کا احساس اور عظمت و جلال حق کی حقیقت معلوم کرنا۔ دوسری تنبیہ یہ ہے کہ جاہل و غافل لوگوں کی طرح بہت زیادہ ہنسنے اور راحت چین اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف عفو مغفرت اور اس کی رحمت پر امید کی وجہ سے فی الجملہ راحت چین اختیار کرنا ایک حد تک گنجائش رکھتا ہے۔
Top