مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 5241
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رأيت مثل النار نام هاربها ولا مثل الجنة نام طالبها . رواه الترمذي .
انسان کی نادانی وغفلت کی ایک مثال
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شدت و سختی ہولناکی کے اعتبار سے میں نے دوزخ کی آگ کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس سے بھاگنے والا سوتا رہے اور سرور و شادمانی کے اعتبار سے میں نے جنت کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس کا طلب گار سوتا رہے۔ (ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی طاقتور دشمن کو اپنے لئے مضرت رساں اور ہلاکت میں مبتلا کرنے والا جانتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس دشمن کی طرف سے غافل نہیں رہتا اور اطمینان کی چادر تان کر سو نہیں جاتا بلکہ ہر وقت ہوشیار رہتا ہے اور جس قدر ممکن ہوتا ہے اس سے دور بھاگتا رہتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ دوزخ کی آگ، جو اپنی ہلاکت وآفرینی، سختی وشدت اور ہولناکی کے اعتبار سے بڑے سے بڑے طاقتور دشمن سے بھی زیادہ ہلاکت و نقصان پہنچانے کے درپے ہے لوگ اس کی طرف سے غافل پڑے رہتے ہیں اور اس سے دور بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر دور بھاگتے بھی ہیں تو عین بھاگنے کی حالت میں نیند و غفلت کی اشکار ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ دوزخ کی آگ سے دور بھاگنا اور اس کی طرف سے غفلت کا شکار نہ ہونا یہ ہے کہ انسان اللہ شناسی و خدا ترسی کا راستہ اختیار کرے گناہ و معصیت کو ترک کر دے اور طاعت و عبادت کو لازم کرے۔ اس طرح دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پسندیدہ و محبوب چیز کا طالب ہوتا ہے اور اس کو پوری طرح حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس چیز کی طلب و خواہش کی راہ میں کسی غفلت وسستی کا روا دار نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے اور وہ جتنی زیادہ سعی و کوشش کرسکتا ہے اس کے مطابق اس چیز کی طرف بھاگتا ہے اور اس کو پالینا چاہتا ہے مگر کتنی عجیب بات ہے کہ جنت جو تمام تر خوبیوں، راحتوں شادمانیوں اور سعادتوں کا مرکز ومجموعہ ہے اس کی طرف سے انسان کس قدر غافل ہے اس کو پانے کی کوشش نہیں کرتا، اس کی طرف دوڑتا نہیں؟ واضح رہے کہ جنت کو پانا اور اس کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا و خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھا جائے برائی کا راستہ چھوڑ کر نیکی کا راستہ اختیار کیا جائے اور طاعت و عبادت میں غفلت وسستی نہ کی جائے۔
Top