سنن ابنِ ماجہ - - حدیث نمبر 5252
وعن أبي بردة بن أبي موسى قال قال لي عبد الله بن عمر هل تدري ما قال أبي لأبيك ؟ قال قلت لا . قال فإن أبي قال لأبيك يا أبا موسى هل يسرك أن إسلامنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهجرتنا معه وجهادنا معه وعملنا كله معه برد لنا ؟ وأن كل عمل عملناه بعده نجونا منه كفافا رأسا برأس ؟ فقال أبوك لأبي لا والله قد جاهدنا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وصلينا وصمنا وعملنا خيرا كثيرا . وأسلم على أيدينا بشر كثير وإنا لنرجو ذلك . قال أبي ولكني أنا والذي نفس عمر بيده لوددت أن ذلك برد لنا وأن كل شيء عملناه بعده نجونا منه كفافا رأسا برأس . فقلت إن أباك والله كان خيرا من أبي . رواه البخاري . و
حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوموسی ؓ سے کیا کہا
حضرت ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری (جو اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر مجھ سے کہنے لگے کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد حضرت عمر فاروق ؓ نے تمہارے والد (حضرت ابوموسی اشعری) سے کیا کہا تھا؟ حضرت ابوبردہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا کہ ابوموسی کیا یہ بات تمہارے لئے خوش کن ہے کہ ہمارا اسلام جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ (یعنی آپ ﷺ کی بعثت سے ملا ہوا تھا) ہماری ہجرت جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی، ہمارا جہاد جو آپ کے ساتھ تھا اور ہمارے سارے اعمال (یعنی نماز، روزے، زکوٰۃ حج اور اس طرح کے دوسرے عبادتی اعمال جو آپ ﷺ کے ساتھ تھے، وہ سب ہمارے لئے ثابت و برقرار رہیں اور ہم نے جو اعمال رسول کریم ﷺ کے بعد کئے ہیں وہ اگر ہم سے برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو ہماری نجات کے لئے کافی ہیں تمہارے والد نے یہ سن کر میرے والد سے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کے بعد جہاد کیا ہے، نمازیں پڑھیں ہیں، روزے رکھے ہیں اور دوسرے بہت نیک اعمال جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ کئے ہیں اور بہت سے لوگ ہمارے ہاتھوں پر یعنی ہماری وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں اور یقینا ہم مذکورہ چیزوں کا اجر وثواب پانے کی امید رکھتے ہیں جو ہمارے پہلے اعمال کے ثواب میں اضافہ ہی کریں گے میرے والد حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تمہاری بات صحیح ہے لیکن میں تو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ہم نے جو اعمال رسول کریم ﷺ کے ساتھ کئے ہیں وہ ثابت و برقرار رہیں اور جو اعمال ہم نے آپ ﷺ کے بعد کئے ہیں ان سے برابر سرابر چھوٹ جائیں۔ حضرت ابوبردہ ؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں حضرت ابن عمر ؓ سے کہا کہ تمہارے والد، اللہ کی قسم میرے والد سے بہتر تھے۔ (بخاری)

تشریح
برابر سرابر چھوٹ جائیں ان الفاظ کے ذریعے حضرت عمر ؓ نے اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ ہم نے حضور ﷺ کے بعد اعمال اختیار کئے جو نیک کام کئے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کس زمرے میں رکھے گئے آیا وہ قبول کئے گئے یا ان کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے، اس صورت میں ہماری یہ تمنا ہی بہتر ہے کہ ان اعمال کا نہ تو ہمیں کوئی نفع پہنچے نہ نقصان، نہ ان پر ثواب ملے اور نہ وہ عذاب کا موجب بنیں گویا اگر وہ اعمال ہمارے لئے ثواب کا موجب نہیں بن سکتے تو اللہ کرے وہ ہمارے حق میں عذاب کا بھی سبب نہ ہوں۔ طاعت ناقص، موجب غفراں نشود راضیم گر مدد علت عصیاں نشود چناچہ ہم نے جو اعمال حضور ﷺ کے سایہ تربیت اور آپ ﷺ کی صحبت کی نورانیت کے سبب کئے ہیں اور بجا طور پر ان کی قبولیت کا گمان رکھتے ہیں، اگر وہی ثابت و برقرار رہیں تو زہے سعادت اور جو اعمال ہم نے حضور ﷺ کے بعد کئے ہیں اور وہ نقصان و خرابی سے خالی نہیں تھے، اگر ان سے ہم برابر سرابر بھی چھوٹ جائیں تو یہی بہت غنیمت ہے۔ حضرت عمر ؓ کے اس احساس کی بنیاد دراصل اس حقیقت پر تھی کہ اتباع کرنے والا علم وعمل کے تئیں اعتقاد و اخلاص میں حجت و فساد کا خود ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے متبوع کی ذمہ داری کے تحت ہوتا ہے، جیسا کہ مقتدی کی نماز کا معاملہ ہے کہ اس کی نماز کا صحیح ادا ہونا امام کی نماز کے صحیح ادا ہونے پر انحصار رکھتا ہے کہ اگر امام کی نماز صحیح ادا نہیں ہوئی تو مقتدی کی نماز بھی صحیح ادا نہیں ہوسکتی، اسی طرح مقتدی کی نماز کا فاسد امام کی نماز کے فاسد ہونے پر انحصار رکھتا ہے لہٰذا جو اعمال حضور ﷺ کی صحبت اور آپ ﷺ کی راہنمائی میں ادا ہوئے ان کا صحت و خوبی کے ساتھ ادا ہونا اور درجہ کمال تک پہنچنا شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح جو عبادتی اعمال حضور ﷺ کے بعد وقوع پذیر ہوئے ان کا نیتوں کے غیر اور حالات کی خرابی سے متاثر ہونا بعید از امکان نہیں، چناچہ اس بات کا اقرار تو خود صحابہ کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہم نے ابھی آپ ﷺ کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد اپنے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے اور ہنوز آپ ﷺ کو سپرد خاک کرنے میں مشغول ہی تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں ایک بڑا تغیر محسوس کیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ آفتاب نبوت کے غروب ہوجانے سے پوری کائنات پر جو اندھیرا پھیلا اس نے ان صحابہ کے قلوب کو بھی متاثر کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ ہم زمانہ رسالت پناہ میں ایمان و اخلاص اور یقین و اعتقاد کے جس مقام پر تھے اب حضور ﷺ کے بعد اس مقام سے نیچے آگئے۔ چناچہ اگر حضرت عمر ؓ نے یہ فرمایا کہ حضور ﷺ کے بعد ہم نے جو عبادت اعمال کئے، ان سے برابر سرابر بھی چھوٹ جانا ہمارے حق میں بڑا غنیمت ہے تو انہوں نے یقینا بڑی عارفانہ بات فرمائی۔ واضح رہے کہ اس بات کا تعلق جب ان پاک نفوس سے جو جلیل القدر صحابہ تھے اور جو اپنے ایمان و اعتقاد اور عمل و کردار کے اعتبار سے پوری امت سے افضل فرد تھے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے اور ان کا کیا ٹھکانا ہوگا جو ان پاک نفسوں کے بھی بعد اس دنیا میں آئے اور ان کی طاعات و عبادات عجب و غرور اور ریا وغیرہ سے بھری ہوئی ہیں؟ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر اپنا فضل و کرم اور رحمت خاص کا سایہ کرے یعنی بدکاروں کو اپنے نیک بندوں کے طفیل میں حسن عاقبت سے نواز دے، ویسے تو بعض عارفین نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ گناہ و معصیت جو بندے میں ندامت و شرمندگی اور ذلت و خواری کا باعث ہو اس طاعت و عبادت سے بہتر ہے جو خود بینی خود نمائی اور تکبر و غرور میں مبتلا کر دے۔ روایت کے آخری جز یعنی حضرت ابوبردہ کے اس قول تمہارے والد اللہ کی قسم، میرے والد سے بہتر تھے کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے والد اتنی عظیم القدر ہستی ہونے اور اتنے زیادہ اعمال و فضائل کے حامل ہونے کے باوجود خوف و دہشت کے اس مقام پر تھے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ میرے والد سے کہیں زیادہ بہتر ہوئے اور ان کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہوگا، یا یہ مراد ہے کہ اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے والد باوجودیکہ میرے والد سے برتر و افضل تھے لیکن وہ آخرت کے معاملے میں اس قدر خوف زدہ تھے؟ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا معاملہ بہت نازک ہے۔
Top