مشکوٰۃ المصابیح - ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5256
عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما الناس كالإبل المائة لا تكاد تجد فيها راحلة . متفق عليه . ( متفق عليه )
قحط الرجال
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ آدمی اختلاف حالات اور تغیر صفات کے اعتبار سے ان سو اونٹوں کے مانند ہے جن میں سے تم ایک ہی کو سواری کے قابل پاسکتے ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
راحلۃ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو تندرست و توانا ہوتا ہے اور سواری وباربرداری کے کام کے لئے بہت اچھا اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لفظ میں حرف ۃ اظہار مبالغہ کے لئے ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی تو بہت ہیں جیسے اونٹ بہت ہوتے ہیں، لیکن جس طرح اونٹوں میں سے سواری اور باربرداری کے قابل چند ہی اونٹ نکلتے ہیں اسی طرح کام کے آدمی کہ جو نبی ﷺ کی صحبت و دریافت کے قابل ہوں اور صحبت دریافت کا حق ادا کرسکیں اور ان کے نیک مقصد میں ان کے معین و مددگار ثابت ہو سکیں، بہت کم ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ کا زمانہ اس اعتبار سے سب سے بہتر زمانہ تھا کہ اس میں کام کے لوگ زیادہ تھے پھر بعد کے زمانہ میں اگرچہ پہلے زمانہ کی بہ نسبت ایسے لوگوں کی تعداد کم تھی لیکن آنے والے زمانہ کے اعتبار سے وہ تعداد یقینا زیادہ تھی اور پھر اس کے بعد کے زمانہ میں ایسے لوگوں کی تعداد اگرچہ دوسرے زمانے کی تعداد سے بھی کم تھی لیکن آنے والے زمانوں کے اعتبار سے یقینا بہت زیادہ تھی۔ حدیث سو کا جو عدد ذکر فرمایا گیا ہے وہ تحدید وتعین کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہار کثرت کے لئے ہے حاصل یہ کہ لوگوں کے جنگل میں ایسی ہستی کا وجود کہ جس پر مخلص عالم باعمل کا اطلاق کیا جاسکے کیمیا کی طرح نایاب ہوتا ہے، اسی لئے ہر زمانہ کے ارباب حال یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ زمانہ قحط الرجال کا ہے۔ حضرت سہل تستری کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب مسجد میں لوگوں کو اس کثرت کے ساتھ دیکھا کہ مسجد اندر اور باہر سے بھری ہوئی تھی تو فرمایا کہ کلمہ گو یقینا بہت ہیں لیکن ان میں مخلص لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس مفہوم کو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں کئی موقعوں پر بیان فرمایا ہے۔
Top