مشکوٰۃ المصابیح - ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5262
وعن محمد بن كعب القرظي قال حدثني من سمع علي بن أبي طالب قال إنا لجلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد فاطلع علينا مصعب بن عمير ما عليه إلا بردة له مرقوعة بفرو فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكى للذي كان فيه من النعمة والذي هو فيه اليوم ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف بكم إذا غدا أحدكم في حلة وراح في حلة ؟ ووضعت بين يديه صحفة ورفعت أخرى وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة ؟ . فقالوا يا رسول الله نحن يومئذ خير منا اليوم نتفرغ للعبادة ونكفى المؤنة . قال لا أنتم اليوم خير منكم يومئذ . رواه الترمذي .
عیش وراحت کی زندگی دینی واخروی سعادتوں کی راہ میں رکاوٹ ہے
حضرت محمد بن کعب قرظی (رح) کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جس نے حضرت علی ؓ سے اس کو سنا تھا (چنانچہ اس شخص نے بیان کیا کہ) حضرت علی ؓ نے فرمایا۔ ایک دن ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ مسجد میں (یعنی مسجد نبوی یا مسجد قبا میں) بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب ابن عمیر ؓ بھی وہاں آگئے اس وقت ان کے بدن پر صرف ایک چادر تھی اور اس چادر میں بھی چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے رسول کریم ﷺ نے ان کو دیکھا تو رو پڑے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب مصعب اس قدر خوشحال اور آرام و راحت کی زندگی گزارتے تھے اور آج ان کی کیا ٹوٹی پھوٹی حالت ہے۔ پھر رسول کریم ﷺ نے اظہار تعجب و حسرت کے طور پر فرمایا۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ تم میں کوئی شخص صبح کو ایک جوڑا پہن کر نکلے گا اور پھر شام کو دوسرا جوڑا پہن کر نکلے گا، تمہارے سامنے کھانے کا ایک بڑا پیالہ رکھا جائے گا اور دوسرا اٹھایا جائے گا اور تم اپنے گھروں پر اس طرح پردہ ڈالو گے جس طرح کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے (یعنی حضور نے اس ارشاد کے ذریعے آنے والے زمانہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ جب تم پر خوشحالی وترفہ کا دور آئے گا، اللہ تعالیٰ دنیا کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا، تمہارے گھروں میں مال و اسباب کی فراوانی ہوگی تو تم دن میں کئی کئی مرتبہ جوڑے بدلو گے، صبح کا لباس الگ ہوگا، شام کا الگ، تمہارے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں اور لذیذ و مرغوب اشیاء سے بھرے ہوں گے، تمہارے مکان راحت و آسائش اور آراستگی و زیبائش کی چیزوں سے پر رونق ہوں گے اور گویا تمہاری زندگی عیش و عشرت کا گہوارہ اور اسراف و تنعم کی آئینہ دار ہوجائے گی۔ تو بتاؤ اس وقت تمہارے دل کی کیا حالت ہوگی اور تم کیا محسوس کرو گے؟ بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ ہم اس دن جب کہ خوشحالی وترفہ کی نعمت سے بہرہ مند ہوں گے آج کے دن سے (جب کہ ہم فقر و افلاس کی گرفت میں ہیں) بہتر حال میں ہوں گے۔ کیونکہ اس وقت ہم عبادت کے لئے اپنی معاشی جدوجہد کی الجھنوں اور حصول رزق کے فکر سے آزاد و فارغ ہوں گے اور ہمیں محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی (یعنی جب اس وقت ہمیں معاشی واقتصادی طور پر خوشحالی حاصل ہوگی اور نوکر چاکر ہمارے سارے کام کاج کریں گے تو ہم ذہنی و جسمانی طور پر پوری طرح بےفکر وآزاد ہوں گے اور اس صورت میں طاعت و عبادت اور دینی خدمت میں پوری دل جمعی اور سکون کے ساتھ منہمک رہ سکیں گے۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت تم بہتر ہوگے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اس دن کی نسبت آج کے دن زیادہ بہتر ہو۔ (ترمذی)

تشریح
سیوطی (رح) نے جمع الجوامع میں حضرت عمر ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک دن مصعب بن عمیر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت انہوں نے بکری کے چمڑے کا ایک تسمہ اپنی کمر کے گرد باندھ رکھا تھا، حضور ﷺ نے ان کو دیکھا تو (حاضرین مجلس سے) فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے منور کردیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس کے بدن پر ایک ایسا لباس دیکھا ہے جو دو سو درہم کے عوض خریدا گیا تھا، (یعنی یہ وہ شخص ہے جو اپنی پچھلی زندگی میں نہایت عیش و عشرت اور راحت وتنعم کی زندگی گزارتا تھا۔ لیکن اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت نے اس کو ایسی حالت پر پہنچا دیا ہے، جس میں تم اس کو اب دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی بےانتہا رحمتیں ہوں اس جلیل القدر ہستی پر جس کا نام مصعب بن عمیر ہے، قریش الاصل ہیں بڑے اونچے درجے کے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، مکہ سے ہجرت کی، گھر بار چھوڑا، دنیا کی ساری نعمتوں اور راحتوں کو ٹھکرا دیا اور حضور ﷺ کی خدمت میں مدینہ آگئے جیسا کہ خود حضور ﷺ نے شہادت دی ہے یہ اپنے اسلام سے پہلے کے زمانے میں مکہ کے بڑے مالداروں میں شمار ہوتے تھے، نہایت خوش لباس وخوش طعام تھے، اچھے سے اچھا پہنتے اور اچھے سے اچھا کھاتے تھے، لیکن جب مسلمان ہوگئے تو سارے عیش وتنعم پر لات ماردی، اللہ اور اس کے رسول کے عشق میں ایسے رنگ گئے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں سے نفرت کرنے لگے، زہد اختیار کرلیا، یہاں تک کہ غزوہ احد کے موقع پر جام شہادت نوش کر کے واصل بحق ہوگئے، شہادت کے وقت ان کی عمر چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔ حدیث سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب ؓ کو دیکھ کر حضور ﷺ کا رو پڑنا، ان کی خستہ حالی کے تئیں رحم و شفقت کے جذبات کے تحت تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو کبھی اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھا، عیش و راحت کی زندگی گزارتا تھا اور اب اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ بدن پر صرف ایک پیوند لگی چادر لپیٹے اپنا وقت گزار رہا ہے۔ لیکن یہ بات اس واقعہ کے منافی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر پیچھے بھی ایک روایت میں گزر چکا ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو کھردری چارپائی پر لیٹے ہوئے دیکھا جس کے بان کے نشانات آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پڑگئے تھے تو اس وقت رو پڑے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی مشقت بھری زندگی کے ساتھ فارس و روم کے بادشاہوں کی زندگی کا مواز نہ کیا۔ جو اللہ کے سرکش و نافرمان اور باغی بندے ہونے کے باوجود عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ اس موقع پر حضور ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا تھا کہ تم ابھی تک سوچنے سمجھنے کے اس مقام سے نہیں بڑے ہو، بندہ اللہ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان بادشاہان دنیا کو بس دنیا کی نعمتیں ملیں اور ہمیں آخرت کی نعمتوں اور سعادتوں سے نوازا جائے؟ اولیٰ یہ ہے کہ حضرت مصعب ؓ کو دیکھ کر حضور ﷺ کے رونے کو فرط مسرت سے رونے پر محمول کیا جائے کہ اپنی امت کے لوگوں کو دنیا سے زہد اختیار کر کے عقبی کی طرف متوجہ دیکھ کر مارے خوشی کے آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اگر اس رونے کو غم و حسرت ہی پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ آپ کا غم دراصل اس بات پر تھا کہ میری امت کے جیسے لوگوں کو ضروریات زندگی کی ایسی چیزیں بھی میسر نہیں ہیں جو دنیا ہی کے لئے ضروری نہیں ہیں بلکہ طاعت و عبادت میں معاون و مددگار بھی ہوتی ہیں جیسے بقدر ضرورت لباس وغیرہ۔ اس تاویل کی تائید حضور ﷺ کے ان الفاظ کیف بکم اذا غدا الخ اور انتم الیوم خیر منکم الخ سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ غریب ومفلس شخص کہ جو ضروریات زندگی کی بقدر کفایت چیزوں کا مالک ہو، غنی و مالدار شخص سے بہتر ہے، چناچہ غنی و مالدار شخص حصول مال و زر کی جدوجہد میں زیادہ مشغولیت کی وجہ سے طاعت و عبادت کے لئے اتنا زیادہ قلبی و جسمانی فراغ و سکون نہیں رکھتا جس قدر کہ وہ غریب ومفلس شخص رکھتا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث درحقیقت صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر و استقامت اختیار کرنے والا غریب ومفلس شخص شکر گزار مالدار سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔ پس صحابہ جیسی ہستیوں کے تعلق سے کہ جو امت کے سب سے زیادہ مضبوط ایمان و عقیدہ اور کردار کے حامل تھے، مالداری کا یہ حال ہے تو غیر صحابہ کے تعلق سے اس کا کیا حال ہوگا، جو ان کی بہ نسبت ایمان و عقیدہ اور کردار وعمل میں کہیں زیادہ ضعیف ہیں۔ اس کی مؤید وہ حدیث بھی ہے جس کو دیلمی نے فردوس میں حضرت ابن عمر ؓ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ مارویت الدنیا عن احد الاکانت خیرۃ لہ بلکہ ملا علی قاری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک خاص بات یہ کہی ہے کہ عن احد (اسی شخص) کا لفظ عام ہے کہ اس کے مفہوم میں مومن و غیر مومن سب شامل ہیں، لہٰذا دوزخ میں مالدار کافر کی بہ نسبت فقیر ومفلس کافر کا عذاب ہلکا ہوگا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جب اس دار فانی میں فقر و افلاس نے کافر کو یہ فائدہ پہنچایا تو اس مومن کو دارالتمرار (آخرت میں) کیسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو دنیا میں اپنے فقر و افلاس پر صابر رہا ہے۔
Top