مشکوٰۃ المصابیح - ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5265
وعن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوشك الأمم أن تداعى عليكم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها . فقال قائل ومن قلة نحن يومئذ ؟ قال بل أنتم يومئذ كثير ولكن غثاء كغثاء السيل ولينزعن الله من صدور عدوكم المهابة منكم وليقذفن في قلوبكم الوهن . قال قائل يا رسول الله وما الوهن ؟ قال حب الدنيا وكراهية الموت . رواه أبو داود والبيهقي في شعب الإيمان .
دنیا سے محبت اور موت کا خوف مسلمانوں کی کمزوری کا سب سے بڑا سبب ہے
حضرت ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے جب کفر و ضلالت سے بھرے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ آپس میں ایک دوسرے کو تم سے لڑاتے اور تمہای شان و شوکت کو مٹانے کے لئے بلائے گا جیسا کہ کھانے کے دسترخوان پر جمع ہونے والے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو کھانے کے قاب کی طرف متوجہ کرتے ہیں یعنی جس طرح کچھ لوگ جمع ہو کر کھانے کی محفل میں دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف کھانے کے برتن سرکاتے رہتے ہیں اور اس میں جو چیز ہوتی ہے اس کو کھانے کے لئے کہتے رہتے ہیں چناچہ وہ سب بلاتکلف اور بغیر کسی رکاوٹ کے ان برتنوں میں سے جو کچھ چاہتے ہیں لے لے کر کھاتے ہیں، اسی طرح کفر و ضلالت کے حامل لوگ تمہارے مقابلے پر جمع ہو کر آپس میں ایک دوسرے کو اکسائیں گے، بھڑکائیں گے اور آخر کار وہ تمہیں ہلاک کریں گے، تمہاری جائیدادیں تباہ کریں گے، تمہارے مال و اسباب لوٹیں گے اور تمہیں خانماں برباد کریں گے اس میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ تم مسلمان ان دشمنان دین کے سامنے چارہ ترکی طرح ہوجاؤ گے جس کا جی چاہے گا تمہیں نگل لے گا۔ کسی صحابی ؓ نے عرض کیا کہ ان کا ہمارے خلاف جمع ہونا اور ہم پر غالب آجانا کیا اس سبب سے ہوگا کہ اس وقت ہم کم تعداد میں ہوں گے؟ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسا اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ تم کم تعداد میں ہو گے بلکہ اس وقت تمہاری تعداد تو بہت ہوگی، لیکن تمہاری حیثیت پانی کے اس جھاگ کی سی ہوگی جو دریا نالوں کے کناروں پر پائے جاتے ہیں (یعنی تمہارے اندر جرات و شجاعت اور قوت کا فقدان ہوگا) اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت اور تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ضعف وسستی پیدا کر دے گا۔ کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے دلوں ضعف وسستی پیدا ہوجانے کا سبب کیا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے بیزاری،۔ یعنی جب زندگی تمہارے لئے عزیز اور موت تمہارے لئے ناپسندیدہ ہوجائے گی تو تم دشمن کا مقابلہ کرنے اور بہادری کے جوہر دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤ گے) اس روایت کو ابوداؤد نے اور بیہقی نے کتاب دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
Top