کوئی اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے سکتی ہے
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی (روزانہ) یہ پوچھا کرتے تھے کہ کل میں کہاں رہوں گا کہ کل میں کس بیوی کے گھر رہوں گا اور اس دریافت کرنے سے آپ کا منشاء یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہ کی باری کس دن ہے کیونکہ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ بہت زیادہ محبت تھی اس لئے آپ ﷺ ان کی باری کے شدت سے منتظر رہتے تھے) چناچہ ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کے اس قلبی اضطراب کو محسوس کیا تو سب نے یہ اجازت دیدی کہ آپ ﷺ جس کے ہاں چاہیں رہیں پھر آپ ﷺ حضرت عائشہ ہی کے ہاں مقیم رہے یہاں تک کہ انہیں کے پاس آپ نے وفات پائی (بخاری)
تشریح
( یرید یوم عائشۃ) ما قبل جملہ کی وضاحت ہے کہ یعنی آپ ﷺ کا روزانہ پوچھنا ازواج مطہرات سے طلب اجازت کے لئے تھا کہ تمام ازواج مطہرات آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ہی کے ہاں رہنے کی اجازت دیدیں چناچہ یہ جملہ (فاذن لہ ازواجہ) ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کو اجازت دیدی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔