مشکوٰۃ المصابیح - توکل اور صبر کا بیان - حدیث نمبر 5043
وعن أبي سعيد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله عز وجل يسأل العبد يوم القيامة فيقول ما لك إذا رأيت المنكر فلم تنكره ؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيلقى حجته فيقول يا رب خفت الناس ورجوتك . روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
تقصیر کی معذرت
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ بزرگ و برتر قیامت کے دن بندہ سے سوال کرتے ہوئے فرمائے گا کہ تجھ کو کیا ہوا تھا کہ جب تو نے کسی خلاف شرع کام کو دیکھا تو (زبان و ہاتھ کے ذریعہ) اس کی بیخ کنی کا فریضہ انجام نہیں دیا؟ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ (اگر اللہ تعالیٰ اس بندہ کو معاف کرنے کا ارادہ فرمائے تو سوال کے ساتھ ہی) اس کو وہ تاویل و دلیل سکھائی جائے گی (جس کے ذریعہ وہ اس فریضہ کو ترک کرنے کی معذرت کرسکے) چناچہ وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار! میں لوگوں کے ظلم و زیادتی سے ڈرتا تھا اور تیری طرف سے عفو درگزر اور مغفرت و بخشش کی امید رکھتا تھا تینوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

تشریح
اس بندہ کی طرف سے مذکورہ جواب میں گویا اپنی تقصیر کا اقرار اپنے عجز کا اظہار اور رب کریم کے فضل و کرم پر اپنے یقین و اعتماد کا بیان ہوگا۔ اور جیسا کہ بیہقی نے کہا ہے، یہ احتمال بھی ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہو جو خلاف شرع امور کا ارتکاب کرنے والوں کے غلبہ و دبدبہ سے ڈرتا ہو اور ان کی طرف سے پہنچائے جانے والے کسی بھی طرح کے نقصان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے طاقت وقدرت نہ رکھتا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر لوگوں کے رعب ودبدبا کی وجہ سے کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دے سکے تو وہ مستوجب مواخذہ نہیں ہوگا اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے حق میں عفو و درگزر کی امید رکھی جاسکتی ہے، لیکن اس صورت میں یہ اشکال یقینا پیدا ہوگا کہ ایسا شخص شریعت کی نظر میں معذور ہے، لہٰذا قیامت کے دن نہ تو اس سے مواخذہ ہوگا اور نہ اس کو معذرت کے لئے کسی تاویل و دلیل کے سکھانے کی ضرورت ہوگی؟ اس اشکال کو دور کرنے کے لئے یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ اس حدیث کا تعلق دراصل اس شخص سے ہے جس نے کسی عذر و مانع کے بغیر مذکورہ فریضہ کی انجام دہی میں کچھ تقصیر کی ہوگی اور اگر اللہ تعالیٰ اس کی اس جزوی تقصیر کو معاف کرنا چاہے گا تو اس کو مذکورہ تاویل و دلیل کا الہام کرے گا تاکہ وہ معذرت کرسکے۔
Top