مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5796
وعن البراء بن عازب عن أبيه أنه قال لأبي بكر : يا أبا بكر حدثني كيف صنعتما حين سريت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أسرينا ليلتنا ومن الغد حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق لا يمر فيه أحد فرفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم يأت عليها الشمس فنزلنا عندها وسويت للنبي صلى الله عليه و سلم مكانا بيدي ينام عليه وبسطت عليه فروة وقلت نم يا رسول الله وأنا أنفض ما حولك فنام وخرجت أنفض ما حوله فإذا أنا براع مقبل قلت : أفي غنمك لبن ؟ قال : نعم قلت : أفتحلب ؟ قال : نعم . فأخذ شاة فحلب في قعب كثبة من لبن ومعي إداوة حملتها للنبي صلى الله عليه و سلم يرتوي فيها يشرب ويتوضأ فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فكرهت أن أوقظه فوافقته حتى استيقظ فصببت من الماء على اللبن حتى برد أسفله فقلت : اشرب يا رسول الله فشرب حتى رضيت ثم قال : ألم يأن الرحيل ؟ قلت : بلى قال : فارتحلنا بعد ما مالت الشمس واتبعنا سراقة بن مالك فقلت : أتينا يا رسول الله فقال : لا تحزن إن الله معنا فدعا عليه النبي صلى الله عليه و سلم فارتطمت به فرسه إلى بطنها في جلد من الأرض فقال : إني أراكما دعوتما علي فادعوا لي فالله لكما أن أرد عنكما الطلب فدعا له النبي صلى الله عليه و سلم فنجا فجعل لا يلقى أحدا إلا قال كفيتم ما ههنا فلا يلقى أحدا إلا رده . متفق عليه
سفر ہجرت کے دوران دشمن کے خلاف معجزہ کا ظہور
حضرت براء ابن عازب ؓ اپنے محترم ( حضرت عازب) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے پوچھا کہ اے ابوبکر! جب ( آنحضرت ﷺ نے ہجرت کے ارادہ سے مکہ چھوڑا اور مدینہ روانہ ہوئے اور) تم نے رات میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر کیا تو ( غار سے نکلنے کے بعد) تمہیں کیا کیا حالات اور واردات پیش آئے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا! ( غار سے نکل کر) ہم ساری رات چلتے رہے اور اگلے دن کا کچھ حصہ بھی ( یعنی دوپہر تک) سفر میں گزرا یہاں تک کہ جب ٹھیک دوپہر ہوگئی اور سورج ٹھہر گیا اور راستہ ( آنے جانے والوں سے) بالکل خالی ہوگیا تو ہمیں ایک چٹان نظر آئی جس کے نیچے سایہ تھا اور سورج اس پر نہیں آیا تھا ( یعنی اس چٹان کے نیچے جو کھوہ یا غار تھا اس میں دھوپ نہیں تھی۔ چناچہ ہم اس چٹان کے نیچے اتر گئے اور میں نے وہاں رسول کریم ﷺ کے لئے ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے ہموار اور صاف کی تاکہ آپ ﷺ اس پر سو رہیں پھر میں نے اس جگہ پر پوستین بچھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ یہاں سو جائیے، میں آپ ﷺ کے ادھر ادھر نگرانی رکھوں گا کہ کسی طرف سے دشمن کا کوئی آدمی تو ہماری ٹوہ میں نہیں ہے، اگر کوئی ادھر آئے گا تو اس کو روکوں گا) رسول کریم ﷺ سوگئے اور وہاں سے نکل کر آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لئے چاروں طرف نگرانی رکھے ہوئے تھا کہ اچانک میں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو سامنے سے آرہا تھا (جب وہ میرے قریب آگیا تو) میں نے پوچھا کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے، کیا تو دودھ دوہ کر دے گا؟ اس نے کہا ہاں! پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا اور لکڑی کے پیالے میں تھوڑا سا دودھ دوہ دیا، میرے پاس ایک چھاگل تھی جو میں نے نبی کریم ﷺ کے استعمال کے لئے رکھی تھی، اس میں پانی رہتا تھا جو آپ ﷺ کے پینے اور وضو کے کام آتا تھا، میں دودھ لے کر) نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ سو رہے تھے، میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور خود بھی آپ ﷺ کا ساتھ دیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ خود بیدار ہوئے (اور میں بھی اٹھ گیا) پھر میں نے دودھ میں (اتنا) پانی ڈالا کہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا اور پھر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! نوش فرمائے۔ آپ ﷺ نے وہ دودھ نوش فرمایا اور میں بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کوچ کا وقت آیا؟ میں نے کہا! ہاں آگیا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کہتے ہیں کہ پس ہم نے سورج ڈھلنے کے بعد (ٹھنڈے وقت) وہاں سے کوچ کیا اور ( آگے سفر شروع ہوا تو) پیچھے سے سراقہ ابن مالک آگیا، میں نے (اس کو دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! دشمن ہمیں پکڑ نے آگیا ہے۔۔۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ڈرو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سراقہ کے لئے بددعا کی اور سراقہ کا گھوڑا اس کو لئے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ (اس صورت حال سے دوچار ہو کر بدحو اس ہوگیا اور) کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں، تم دونوں نے میرے لئے بددعا کی ہے، اب میری نجات وخلاصی کے لئے بھی تم دعا کرو مجھ کو اس گرفت سے نجات دلا دو تو) میں اللہ کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہوں کہ میں کفار کو تمہارا تعاقب کرنے سے روک دوں گا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی اور وہ اس گرفت سے نجات پا گیا۔ اور سراقہ نے (اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے یہ کیا) کہ آنحضرت ﷺ کی تلاش میں مکہ سے روانہ ہونے والے کافروں میں سے) جو بھی اس راستہ میں ملتا وہ اس سے کہتا کہ تمہارے لئے میرا تلاش کرنا کافی ہے (یعنی میں بہت دور سے محمد ﷺ کو تلاش کرکے دیکھ چکا ہوں ان کا کہیں پتہ نہیں چلا تم ان کو تلاش کرنے کی زحمت برداشت نہ کرو) سراقہ کو جو شخص بھی ملتا اس کو وہ یہی کہہ کر واپس کردیتا۔ ( بخاری و ومسلم)

تشریح
۔ اور خود بھی آپ ﷺ کا ساتھ دیا یہ فوافقتہ کا ترجمہ ہے، یعنی آپ ﷺ کو سوتا دیکھ کر نہ صرف یہ کہ میں نے آپ ﷺ کو جگانا پسند کیا بلکہ آپ ﷺ کی طرح میں خود بھی ایک طرف کو لیٹ کر سوگیا۔ اور ایک روایت میں یہ لفظ ف پر ق کی تقدیم کے ساتھ ہے، اس صورت میں ترجمہ ومطلب یہ ہوگا کہ میں نے آپ ﷺ کو سوتا دیکھ کر توقف کیا یعنی آپ ﷺ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اس وقت تک انتظار کرتا رہا جب تک آپ ﷺ خود بیدار نہ ہوگئے۔ پھر میں نے دودھ میں پانی ڈالا عربوں کی عادت تھی کہ دودھ کی حرارت کو زائل کرنے کے لئے اس میں ٹھنڈا پانی ملالیتے تھے اور پھر اس کو پیتے تھے، چناچہ اس موقع پر حضرت ابوبکر ؓ نے بھی اس عادت ومعمول کے مطابق بکری کے اس دودھ میں اتنا پانی ملادیا جس سے وہ دودھ خوب ٹھنڈا ہوگیا۔ اور میں بہت خوش ہوا۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اس بات سے بہت خوشی و طمانیت محسوس ہوئی کہ ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کو کچھ دیر استراحت کا موقع مل گیا بلکہ دودھ بھی فراہم ہوگیا جس کو آپ ﷺ نے بشاشت وخوش طبعی کے ساتھ نوش فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محب کی اصل خوشی محبوب کی خوشی اور راحت میں ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی بکریوں کا دودھ کیسے دوہا اور پیا گیا جس کی مالک کی اجازت حاصل نہیں تھی؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہ بکریاں کسی ایسے شخص کی تھیں جو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا دوست اور معتمد تھا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنے اس دوست کی اجازت کا اعتماد رکھتے تھے، دوسرا جواب یہ ہے کہ عربوں اور خاص طور پر اہل مکہ کی عادت تھی کہ وہ اپنے چرواہوں کو پہلے ہی اجازت دیدیتے تھے کہ انہیں جو مسافر یا بھوکا ملے اور طلبگار ہو تو اس کو بلاتوقف دودھ نکال کر دے دیا کریں اور ایک تیسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مطلوبہ قیمت دیکر وہ دودھ حاصل کیا ہوگا! سراقہ ابن مالک ان لوگوں میں سے ایک تھا جن کو قریش مکہ نے آنحضرت ﷺ کے تعاقب پر مامور کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی محمد ﷺ کو پکڑ کر لائے گا اور ہمارے حوالے کردے گا اس کو بطور انعام سو اونٹ دئیے جائینگے۔ یہ سراقہ ابن مالک فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے تھے! اور وہ گرفت سے نجات پا گیا ایک روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بددعا کے نتیجہ میں سراقہ کے زمین میں دھنسنے اور پھر آنحضرت ﷺ کی دعا کے بعد نجات پانے کا واقعہ تین بار ہوا یعنی وہ ہر بار آنحضرت ﷺ سے دعا کرا کر نجات پا جاتا اور پھر آپ ﷺ کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھنے لگتا، یہاں تک کہ وہ جب تیسری مرتبہ اپنے گھوڑے کے ساتھ زمین میں دھنسا اور اس کی لجاجت پر آنحضرت ﷺ نے اس کے حق میں دعا کر کے اس کو نجات دلوائی تو وہ اپنے برے ارادہ سے باز آگیا اور پھر نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کو پکڑنے کے لئے خود آگے نہیں بڑھا بلکہ واپسی میں اس کو جو شخص بھی آنحضرت ﷺ کے تعاقب میں آتا ہوا ملا اس کو اس نے واپس کردیا اور کسی کو آنحضرت ﷺ تک پہنچنے نہیں دیا۔ اس حدیث سے جہاں آنحضرت ﷺ کے معجزے اور مختلف وجوہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے وہیں کئی قیمتی اور مفید باتیں بھی سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ تابع کو اپنے متبوع کی خدمت میں اپنی پوری کوشش اور صلاحیت صرف کرنی چاہئے، دوسرے یہ کہ سفر میں ایسا برتن ( یعنی چھاگل یا لوٹا وغیرہ) ساتھ رکھنا کہ جو پانی پینے اور طہارت و وضو کے کام آئے نہایت ضروری ہے اور تیسرے یہ کہ بندہ کو ہر حالت میں اپنے اللہ پر اعتماد اور توکل رکھنا چاہئے کہ نتیجہ اور انجام کی بہتری اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔
Top