مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5797
وعن أنس قا ل سمع عبد الله بن سلام بمقدم رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو في أرض يخترف فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال إني سائلك عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي : فما أول أشراط الساعة وما أول طعام أهل الجنة ؟ وما ينزع الولد إلى أبيه أو إلى أمه ؟ قا ل : أخبرني بهن جبريل آنفا أما أول أشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلى المغرب وأما أول طعام يأكله أهل الجنة فزيادة كبد الحوت وإذا سبق ماء الرجل ماء المرأة نزع الولد وإذا سبق ماء المرأة نزعت . قال : أشهد أن لاإله إلا الله وأنك رسول الله يا رسول الله إن اليهود قوم بهت وإنهم إن يعلموا بإسلامي من قبل أن تسألهم يبهتوني فجاءت اليهود فقال : أي رجل عبد الله فيكم ؟ قالوا : خيرنا وابن خيرنا وسيدنا وابن سيدنا فقال : أرأيتم إن أسلم عبد الله بن سلام ؟ قالوا أعاذه الله من ذلك . فخرج عبد الله فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فقالوا : شرنا وابن شرنا فانتقصوه قال : هذا الذي كنت أخاف يا رسول الله رواه البخاري
عبداللہ ابن سلام کے ایمان لانے کا واقعہ
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن سلام ایک جگہ درختوں سے پھل چن رہے تھے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے ( مکہ سے مدینہ میں) آنے کا حال سنا، وہ فورا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں ( نبوت کی علامتوں کی تصدیق کے لئے) آپ ﷺ سے تین باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں، جن کو نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا، ایک تو یہ کہ قیامت کی پہلی علامت کیا ہوگی؟ دوسرے یہ کہ جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہوگا۔ ( جو وہ جنت میں پہنچ کر سب سے پہلے کھائیں گے) تیسرے یہ کہ وہ کونسی چیز ہے جو اولاد کو ماں یا باپ کے مشابہ کرتی ہے ( یعنی اولاد جو شکل و صورت کے اعتبار سے کبھی باپ کے مشابہ ہوتی ہے اور کبھی ماں کے مشابہ تو اس کا کیا سبب ہے؟ ) آنحضرت ﷺ نے ( عبداللہ ابن سلام کے یہ تینوں سوال سن کر) فرمایا ابھی ابھی جبرائیل (علیہ السلام) نے ان سوالوں کے جواب سے آگاہ کیا ہے ( اور وہی تمہیں بتاتا ہوں) کہ قیامت کی پہلی علامت تو وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف جمع کر کے لے جائے گی اور جنتی جنت میں سب سے پہلے جو کھانا کھائیں گے وہ مچھلی کے جگر کا زائد حصہ ہوگا ( یعنی مچھلی کے جگر کا وہ حصہ جو جگر سے علیحدہ لٹکتا ہے اور جو مچھلی کا لذیذ ترین جزء ہوتا ہے) اور جہاں تک اولاد میں ماں باپ کی مشابہت کا سوال ہے تو) اگر مرد کا پانی ( منی) عورت کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو مرد اولاد کو اپنی مشابہت کی طرف کھینچ لیتا ہے اور اگر عورت کا پانی ( مرد کے پانی پر) غالب آجاتا ہے تو عورت اولاد کو اپنی مشابہت کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ عبداللہ ابن سلام نے ( اپنے سوالوں کے یہ جواب سن کر) کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ ﷺ یقینًا اللہ کے رسول ہیں ( اس قبول اسلام کے بعد عبداللہ ابن سلام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ یہودی بڑے افتراش اور بہتان تراش ہیں، اگر آپ ﷺ کے پوچھنے سے پہلے ان کو میرا مسلمان ہونا معلوم ہوگیا تو مجھ پر جھوٹے بہتان باندھیں گے ( یعنی ان کو یہ معلوم ہونے کے بعد کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، آپ ﷺ ان سے میرے بارے میں کچھ پوچھیں گے تو وہ مخالفت پر اترآئیں گے اور مجھ پر بڑے بڑے الزام لگا ڈالیں گے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ان کو میرے اسلام کی خبر ہونے سے پہلے آپ ان سے میرے بارے میں جو پوچھنا چاہیں پوچھ لیں تاکہ وہ میرے متعلق صحیح حالات سے آپ ﷺ کو آگاہ کریں )۔ چناچہ اتفًاقا یا آنحضرت ﷺ کے بلانے پر، اسی وقت) کچھ یہودی مجلس نبوی میں آگئے اور عبداللہ ابن سلام ایک گوشہ میں چھپ گئے، آنحضرت ﷺ نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ تم میں ( یا تمہارے گمان وعلم میں) عبداللہ ابن سلام کیسے شخص ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ ہم میں سے بہترین آدمی ہیں، ہم میں سے بہترین آدمی کا بیٹا ہے ( یعنی عبداللہ ابن سلام نہ صرف یہ کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ہم میں، علمی، اخلاقی اور سماجی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے سردار ہیں بلکہ حسب ونسب کے اعتبار سے بھی ہم پر ان کو فضیلت حاصل ہے ( آنحضرت ﷺ نے ان کا یہ جواب سن کر) پھر یہ پوچھا کہ اچھا بتلاؤ کہ عبداللہ ابن سلام مسلمان ہوجائیں ( تو کیا تم بھی مسلمان ہوجاؤ گے، یہودیوں نے کہا اللہ اس کو اسلام سے بچائے اور اپنی حفاظت میں رکھے ( یا یہ کہ معاذ اللہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے) جبھی عبداللہ ابن سلام ان کے سامنے آگئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا معبود نہیں اور یہ کہ بلاشبہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہودیوں نے یہ ( سنتے ہی) کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص تو ہم میں بہت برا ہے اور بدترین شخص کا بیٹا ہے اور ان میں طرح طرح کے عیب نکالنے لگے۔ عبداللہ ابن سلام نے کہا ( آپ ﷺ نے دیکھا) یا رسول اللہ ﷺ! یہی وہ بات ہے جس سے میں ڈرتا تھا ( اور اسی وجہ سے میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ ان سے میرا حال پہلے پوچھ لیجئے، تاکہ آپ ﷺ کو اندازہ ہوجائے کہ یہ قوم کیسی دوغلی اور جھوٹی ہے۔ ( بخاری)

تشریح
عبداللہ ابن سلام ایک جگہ درختوں کے پھل چن رہے تھے یا تو صورت واقعہ یہی تھی کہ عبداللہ ابن سلام نے اپنے باغ میں درختوں سے پھل اتارنے اور اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ کسی نے آکر ان کو بتایا ہوگا کہ نبوت کا دعویٰ اور دین اسلام کی دعوت لے کر محمد ﷺ مدینہ میں آگئے ہیں، یہ سنتے ہی وہ اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔۔۔ یا یہ کہ عبداللہ ابن سلام آنحضرت ﷺ کی آمد کی خبر سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں جس عجلت واشتیاق کے ساتھ حاضر ہوئے اس کو ان الفاظ کے ذریعہ مبالغہ کے طور بیان کیا گیا ہے مطلب یہ کہ عبداللہ ابن سلام اگر چاہتے تو اپنا کام کاج نمٹانے کے بعد فرصت کے وقت اور اطمینان سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آتے، لیکن انہوں نے چونکہ تورات میں آنحضرت ﷺ کی صفات و خصوصیات کو پڑھ رکھا تھا اور نبی آخرالزمان ﷺ کے ظہور کے شدت سے منتظر تھے اس لئے جوں ہی ان کو آنحضرت ﷺ کی آمد کی خبر ملی وہ ذرا بھی توقف کئے بغیر خدمت اقدس میں پہنچ گئے۔ مدتے برد کہ مشتاق نقایت بودم لاجز روئے ترا دیدار واز جارفتم عبداللہ ابن سلام کا سلسلہ نسب حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملتا ہے، یہود مدینہ کے سرداروں میں سے تھے، بڑے عقل مند وعالم، دانشور اور تورات پر زبردست عبور رکھتے تھے، آنحضرت ﷺ، مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہ اس تشریف آوری کا علم ہوتے ہی آنحضرت ﷺ کی خدخت میں حاضر ہوئے اور ایمان واسلام کی دولت سے سرفراز ہو کر نہایت اونچے درجہ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمار ہوئے۔ ؓ۔ جن کو نبی ﷺ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اس سے عبداللہ ابن سلام کی یہ مراد تھی کہ میں جو تین چیزیں پوچھ رہا ہوں ان کے بارے میں صحیح بات جاننا اور بتانا صرف نبی کے بس میں ہے۔ نبی کے علاوہ وہی شخص جان سکتا ہے جس کو یا تو نبی نے بتایا ہو یا اس نے اللہ کی کتاب سے معلوم کیا ہو۔ یہ بیان مراد اس لئے ضروری ہے کہ خود عبداللہ ابن سلام بھی تو ان چیزوں کے بارے میں اجمالی وتفصیلی طور پر جانتے تھے اور ان کو یہ علم تورات سے حاصل ہوا تھا اور ان سوالات سے ان کا اصل مقصد آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی تصدیق حاصل کرنا تھا، ان تینوں چیزوں کے جوابات گویا ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کا معجزہ ثابت ہوئے اور ان کو آنحضرت ﷺ کی رسالت ونبوت کا علم یقین حاصل ہوا اور غالبًا اسی مناسبت سے اس حدیث کو یہاں معجزات کے باب میں نقل کیا گیا ہے۔ ابھی ابھی جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ان سوالوں کے جواب سے آگا کیا ہے۔ اپنے سوالات کے جواب سن کر عبداللہ ابن سلام کو یہ وہم اور شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے ( یعنی آنحضرت ﷺ نے) شاید یہ کسی اہل کتاب ( تورات جاننے والے) سے پہلے ہی یہ باتیں سن رکھی ہوں گی۔ اور اسی بنیاد پر میرے سوالات کے جواب دئیے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اس وہم اور شبہ کی راہ پہلے ہی روک دینے کے لئے واضح فرمایا کہ یہ جواب جو میں تمہارے سامنے بیان کر رہا ہوں اللہ کی طرف سے جبرائیل (علیہم السلام) نے مجھ تک پہنچائے ہیں، نیز ان الفاظ سے آپ ﷺ کا مقصد عبداللہ ابن سلام کو متنبہ فرمانا بھی تھا کہ گوش ہوش سے اپنے سوالات کے جواب سنو، علاوہ ازیں ان کو وجود وحی اور نزول جبرائیل سے (علیہ السلام) کو آگاہ کرنا بھی مقصود تھا۔ اذا سبق ماء الرجل الخ میں سبق کے معنی ملا علی قاری (رح) نے علا اور غلب لکھے ہیں اور ترجمہ میں اسی معنی کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے اس کے معنی پیش میشود یعنی رحم میں پہلے پہنچنا لکھے ہیں مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت میں جس کا پانی عورت کے رحم میں پہلے پڑتا ہے اس کی شکل وشباہت کی چھاپ اولاد پر پڑتی ہے، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (رح) نے بعد میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے ماں باپ کے مشابہ ہونے کا سبب ان دونوں میں سے ایک کے پانی کا سبقت کرنا ہے جب کہ ایک اور حدیث میں جو باب الغسل میں نقل ہوئی ہے مشابہت کا سبب غلبہ اور سبقت دونوں کو بتایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے سبق کے معنی غلبہ اور سبقت دونوں کے ہوسکتے ہیں؟
Top