مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5798
وعنه قا ل : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم شاور حين بلغنا إقبال أبي سفيان وقام سعد بن عبادة فقال : يا رسول الله والذي نفسي بيده لو أمرتنا أن نخيضها البحر لأخضناها ولو أمرتنا أن نضرب أكبادها إلى برك الغماد لفعلنا . قال : فندب رسول الله صلى الله عليه و سلم الناس فانطلقوا حتى نزلوا بدرا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : هذا مصرع فلان ويضع يده على الأرض ههنا وههنا قا ل : فما ماط أحدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم
جنگ بدر سے متعلق پیش خبری کا معجزہ
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس وقت جب کہ ہمیں ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی، ( مدینہ والوں سے) صلاح مشورہ کیا تو سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر آپ ﷺ ہمیں اپنی سواری کے جانوروں کو سمندر میں ڈال دینے کا حکم دیں تو بلاشبہ ہم ایسا ہی کریں گے ( یعنی روئے زمین پر موقوف نہیں اگر آپ ﷺ کا حکم ہوگا تو ہم دشمن تک پہنچنے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے سمندر میں اپنے گھوڑے دوڑا دیں گے) اور اگر آپ ﷺ کا حکم ہو کہ ہم اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کے جگر کو برک غماد تک ماریں تو ہم بیشک ایسا ہی کریں گے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے تمام لوگوں یعنی مہاجرین و انصار کو ( جنگ کے لئے) جوش و خروش سے بھر دیا اور تیار کیا اور سب لوگ روانہ ہوگئے یہاں تک کہ جب بدر کے مقام پر پہنچے ( معرکہ آرائی کے لئے اس جگہ کو منتخب کیا گیا) تو رسول کریم ﷺ نے ( مجاہدین اسلام کو مخاطب کر کے) فرمایا ( دیکھو) یہ جگہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے اور اس کی نعش گرنے کی ہے ( اور اس جگہ فلاں شخص قتل ہو کر گرے گا) اس طرح آپ ﷺ مکہ کے کفار واشقیاء کے نام لیتے جاتے تھے اور زمین پر ( ایک ایک جگہ) ہاتھ رکھتے ( اور کہتے جاتے تھے کہ) فلاں شخص یہاں مر کر گرے گا اور فلاں شخص کی لاش یہاں گرے گی۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جہاں جہاں ہاتھ رکھ دیا تھا وہاں سے ایک شخص بھی متجاوز نہیں ہوا۔ ( مسلم)

تشریح
جب کہ ہمیں ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی۔ یہ غزوہ بدر کی ابتدائی مرحلہ کا ذکر ہے کہ مکہ کا ایک سردار ابوسفیان اپنے تجارتی قافلہ کے ہمراہ ملک شام سے مکہ واپس آرہا تھا، قافلہ میں آدمی تو صرف چالیس سوار تھے لیکن مال اسباب بہت زیادہ تھا، جب مدینہ میں مسلمانوں کو ابوسفیان کے اس تجارتی قافلہ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اہل مکہ پر بھر پور اقتصادی ومالی ضرب لگانے کے لئے اس موقع کو غنیمت جانا، ان کا خیال تھا کہ قافلہ کے چالیس سواروں کو زیر کر کے ان تمام مال و اسباب پر قبضہ کرلیا جائے گا، لیکن اول تو خود ابوسفیان کو مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع مل گئی اور اس نے عام راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کرلیا جس سے مسلمانوں کی زد سے وہ محفوظ ہوگیا دوسرے یہ خبر مکہ بھی پہنچ گئی اور اہل مکہ نے مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا، چناچہ ابوجہل نے کعبہ کی چھٹ پر چڑھ کر اہل مکہ کو مسلمانوں کے خلاف للکارا اور انہیں نہایت مشتعل کر کے جنگ پر آمادہ کیا! جب پوری تیار ہوگئی تو ابوجہل زبر دست حربی طاقت کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا، راستہ میں کچھ لوگوں نے اس کو سمجھایا بھی کہ جب ہمارا قافلہ ساحلی علاقہ پر لگ گیا ہے اور مسلمانوں کی زد سے محفوظ واپس آرہا ہے تو اب مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے جانے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ مکہ لوٹ جائیں لیکن ابوجہل کے تو زوال کا وقت آگیا تھا، اس نے لوگوں کا یہ مشورہ ماننے سے انکار کردیا اور بدر پہنچ گیا۔ اسی موقع پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آنحضرت ﷺ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں صورتوں میں سے ایک صورت کا وعدہ کیا ہے، چاہے قافلہ کو زیر کر کے مال حاصل کرلو اور چاہے ( جنگ کر کے) دشمنوں پر فتح حاصل کرلو۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے مہاجر و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے مشورہ فرمایا کہ ابوسفیان تو ساحلی راستہ اختیار کر کے ہماری زد سے بچ گیا ہے اور اب جب کہ ابوجہل ہمیں نیست ونابود کردینے کا عزم لے کر زبردست فوجی طاقت کے ساتھ ہمارے مقابلہ پر نقل کھڑا ہوا ہے تو ہمیں کیا رویہ اور طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے! آنحضرت ﷺ کا یہ مشورہ طلب کرنا دراصل انصار مدینہ کو آزمانا اور ان کا رد عمل جاننا تھا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابتداء میں ان سے جو بیعت لی تھی اس میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ وہ ( انصار) جہاد کے لئے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نکلیں گے اور دشمن کے مقابلہ پر مسلمانوں کی اقدامی کا روائی میں جانی ومالی مدد دیں گے، ان سے صرف اس بات پر بیعت لی گئی تھی کہ وہ ان لوگوں سے، آنحضرت ﷺ کی حفاظت کریں گے جو آپ پر حملہ آور ہوں گے، اس وقت یہ صورت حال تھی کہ کوئی دشمن آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر حملہ آور نہیں ہو رہا تھا بلکہ خود مسلمانوں سے جنگ کی طرف سے ابوسفیان کے تجارتی قافلہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس کے شاخسانہ کے طور پر اہل مکہ مسلمانوں سے جنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے ضروری جانا کہ انصار سے مشورہ کر کے ان کا رد عمل جان لیا جائے کہ آیا وہ اس کار روائی میں ہماری مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو انصار کی طرف سے نہایت حوصلہ افزا جواب ملا انہوں نے نہ صرف اس موقع پر تن من، دھن سے جان نثاری کا ثبوت دیا بلکہ بعد میں بھی جب کوئی ایسا موقع آیا انہوں نے پوری یگانگت اور موافقت کے ساتھ خود کو آنحضرت ﷺ اور مہاجرین کے دوش بدوش رکھا۔ آنحضرت ﷺ کے اس مشورہ طلب کرنے میں امت کے لئے بھی تلقین و ترغیب ہے کہ اپنے مسائل و معاملات میں اصحاب عقل و دانش اور اپنے رفقاء ومعاونین سے مشورہ کرنا حسن مآل تک پہنچنے کا بابرکت ذریعہ ہے۔ سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔۔۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا مشورہ طلب کرنے سے آنحضرت ﷺ کا اصل مقصد چونکہ انصار کا ردعمل جاننا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر حضرت سعد ابن عبادہ جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے جو انصار کے ایک سردار تھے انہوں نے آنحضرت ﷺ کو جواب دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کسی بھی حالت میں آپ کی مدد کرنے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، یہ تو بہت نزدیک کے دشمن کے مقابلہ پر جانے کی بات ہے اگر ہمیں دور دراز علاقوں میں جانے کا حکم دیں تو چاہے ہمیں زمین پر سفر کرنا پڑے چاہے سمندر میں اتر کر جانا پڑے ہم آپ ﷺ کے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔ برک غماد ایک مقام کا نام تھا جو مدینہ سے بہت دور یمن میں واقع تھا، یا ہجر کے پر لے کنارہ پر اور یا اس کی آبادیوں کے بالکل آخری کنارہ پر تھا۔۔۔ اونٹوں یا گھوڑوں کے جگر کو مارنا، سورای کے جانور کو نہایت تیز ہانکنے سے کنایہ ہے۔ اور اس میں لفظی مناسبت یہ ہے کہ جب کوئی شخص مثلا گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور گھوڑا تیز بھاگتا ہے تو سوار کے پیر اس گھوڑے کے جسم کے اس حصہ پر زور زور سے لگتے جاتے ہیں جہاں جگر ہوتا ہے اس جملہ کا مطلب یہی تھا کہ اگر آپ ہمیں اپنی سواریوں کو تیز بھگا کر برک غماد تک جو یہاں سے بہت دور واقع ہے، دشمن کے مقابلہ پر پہنچنے کا حکم دیں تو ہم آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں یہاں سے فورًا روانہ ہوجائیں گے اور کہیں رکے بغیر نہایت تیز رفتاری سے برک غماد پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ حدیث کے آخر میں آنحضرت ﷺ کے ایک بڑے معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے بدر کے مقام پر پہنچ کر جنگ شروع ہونے سے بھی پہلے ستر کافروں کی لاشیں گرنے کی جگہوں کے بارے میں بتادیا تھا، آپ ﷺ نے ان سب کے نام لے لے کر اور ایک ایک جگہ ہاتھ رکھ کر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آگاہ فرمایا تھا کہ ان میں سے فلاں شخص اس جگہ مقتول ہو کر گرے گا اور فلاں شخص کی لاش یہاں گرے گی۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جب جنگ شروع ہوئی اور مجاہدین اسلام نے کافروں کو قتل کرنا شروع کیا آپ ﷺ نے جس کافر کے لئے جس جگہ کا اشارہ فرما دیا وہ اسی جگہ مارا گیا اور اس کی لاش وہاں سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں گری۔
Top