مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5812
وعن عوف عن أبي رجاء عن عمر بن حصين قا ل : كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه و سلم فاشتكى إليه الناس من العطش فنزل فدعا فلانا كان يسميه أبو رجاء ونسيه عوف ودعا عليا فقال : اذهبا فابتغيا الماء . فانطلقا فتلقيا امرأة بين مزادتين أو سطحتين من ماء فجاءا بهاإلى النبي صلى الله عليه و سلم فاستنزلوهاعن بعيرها ودعا النبي صلى الله عليه و سلم بإناء ففرغ فيه من أفواه المزادتين ونودي في الناس : اسقوا فاستقوا قال : فشربنا عطاشا أربعين رجلا حتى روينا فملأنا كل قربة معنا وإداوة وايم الله لقد أقلع عنها وإنه ليخيل إلينا أنها أشد ملئة منها حين ابتدأ . متفق عليه
پانی میں برکت کا معجزہ
اور حضرت عوف (رح) ( تابعی) حضرت ابورجاء (رح) ( تابعی) سے اور وہ حضرت عمران ابن حصین ؓ ( صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ( یعنی حضرت عمران نے) بیان کیا ایک سفر میں ہم ( کچھ صحابہ) نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، ایک موقع پر لوگوں نے آپ سے ( پانی نہ ہونے کے سبب) پیاس کی شکایت کی، آپ ﷺ ( یہ سن کر) اسی جگہ اتر پڑے اور فلاں شخص کو بلایا۔ اس فلاں شخص کا نام ابوجاء نے تو بیان کیا تھا لیکن ( ان کے بعد کے راوی) عوف اس شخص کا نام بھول گئے اس لئے انہوں نے اس شخص کو لفظ فلاں سے تعبیر کیا۔ نیز آپ ﷺ نے حضرت علی کو بھی طلب کیا اور ان دونوں کو حکم دیا کہ جاؤ پانی تلاش کرو، چناچہ وہ دونوں ( یعنی وہ شخص اور حضرت علی پانی کی تلاش میں ادھر ادھر پھرنے لگے، انہوں نے ایک جگہ ایک عورت کو دیکھا، جو اونٹ پر ( لٹکے ہوئے) دو مشکیزوں کے درمیان بیٹھی تھی، یا یہ کہ پانی کے دو سطیحوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی، دونوں حضرات اس عورت کو، ( اس کے مشکیزے سمیت) نبی کریم ﷺ کے پاس لائے، پھر اس عورت کو ( یا جیسا کہ بعض حضرات نے لکھا ہے اس کے مشکیزوں کو اونٹ سے اتارا گیا، نبی کریم ﷺ نے ایک برتن منگا کر اس میں دونوں مشکیزوں کے دہانوں سے پانی انڈیلنے کا حکم دیا اور پھر لوگوں کو آوازدی گئی کہ آؤ پانی پیو اور پلاؤ ( اور اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لو۔۔ )۔ چناچہ سب لوگوں نے خوب پانی پیا ( اور اپنے اپنے برتنوں میں اچھی بھر لیا )۔ حضرت عمران کہتے ہیں کہ اس وقت ہم لوگ چالیس آدمی تھے جو بری طرح پیاسے تھے ہم سب نے اس برتن میں سے خوب سیر ہو کر پانی پیا بھی اور اپنی اپنی مشکیں اور چھاگلیں بھی ہمارے ساتھ تھیں اچھی طرح بھر لی گئیں، اللہ کی قسم جب ہم لوگوں کو روک دیا گیا یعنی جب ہم پانی لے لے کر اس چھاگل کے پاس سے ہٹے تو ہم نے محسوس کیا کہ چھاگل پہلے سے زیادہ بھرئی ہوئی ہے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب نے اس چھاگل سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور جس جس کے پاس جو بھی برتن تھا اس کو اچھی طرح بھر لیا گیا، اس کے بعد اس چھاگل میں نہ صرف یہ کہ پانی جوں کا توں موجود تھا بلکہ یہ ایسا محسوص ہوا کہ یہ چھاگل اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی ہے جب اس سے پانی لینا، شروع کیا گیا تھا۔ اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں جو یہاں نقل نہیں ہوئے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو کھانا اور غلہ وغیرہ دیا، جب وہ وہاں سے واپس ہو کر اپنی قوم میں پہنچی تو لوگوں سے سارا ماجرا بیان کر کے کہنے لگی کہ وہ شخص یا تو اتنا بڑا جادوگر ہے کہ اس کے برابر کوئی جادوگر زمین و آسمان میں نہیں ہے یا وہ شخص نبی برحق ہے۔
Top