مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5824
وعنه إنكم تقولون أكثر أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم والله الموعد وإن إخوتي من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق وإن إخوتي من الأنصار كان يشغلهم عمل أموالهم وكنت امرأ مسكينا ألزم رسول الله صلى الله عليه و سلم على ملء بطني وقال النبي صلى الله عليه و سلم يوما : لن يبسط أحد منكم ثوبه حتى أقضي مقالتي هذه ثم يجمعه إلى صدره فينسى من مقالتي شيئا أبدا فبسطت نمرة ليس علي ثوب غيرها حتى قضى النبي صلى الله عليه و سلم مقالته ثم جمعتها إلى صدري فوالذي بعثه بالحق ما نسيت من مقالته تلك إلى يومي هذا . متفق عليه
حضرت ابوہریرہ کا کثیر الروایت ہونا اعجاز نبوی کا طفیل ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک دن تابعین کو مخاطب کر کے یا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے صحابہ متاخرین کو مخاطب کر کے کہا کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے بہت زیادہ حدیثیں نقل کرتے ہیں ( تو پہلے یہ سمجھ لو کہ) اللہ کا وعدہ ( برحق ہے) اور پھر سنو میں زیادہ حدیثیں بیان کرنے کا سبب تمہیں بتاتا ہوں کہ میرے مہاجر بھائیوں کو تو بازار میں ہاتھ پر ہاتھ مارنے ( یعنی خریدو فروخت کی مشغولیت الجھائے رکھتی تھی اور میرے انصار بھائیوں کو ان کی زمین جائیداد فرصت نہیں دیتی تھی، جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ایک مسکین ومفلس شخص تھا اور پیٹ بھر کر کھانا مل جانے پر قناعت کر کے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پڑا رہتا تھا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ) رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا کپڑا پھیلائے اور اس وقت تک پھیلائے رہے جب تک میں اپنی بات ( یعنی دعا) پوری نہ کرلوں اور پھر وہ شخص اپنے کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگالے تو یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ میرے بات ( حدیث) کو کلی طور پر یا جزوی طور پر کبھی بھی بھول جائے۔ چناچہ میں نے ( فورا) اپنی کملی پھیلا لی جس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں تھا اور اس کو اس وقت تک پھیلائے رکھا جب تک آپ ﷺ نے اپنی بات پوری نہ کرلی اور پھر اس کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ( اس کے بعد سے) آج تک میں آنحضرت ﷺ سے سنا ہوا کوئی ارشاد نہیں بھولا ہوں۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ کا وعدہ برحق ہے میں اللہ کے وعدہ سے مراد قیامت کا دن ہے، اس بات سے حضرت ابوہریرہ ؓ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اگر میں نے آنحضرت ﷺ کی حدیث بیان کرنے میں کمی بیشی یا خیانت کی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ کو سزا دے گا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرما دیا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے یعنی میری طرف نسبت کرکے جھوٹی حدیث بیان کرے تو اس کو اپنا ٹھکانا دوزخ میں تیار سمجھنا چاہئے۔ دوسرے صحابہ کی بہ نسبت حضرت ابوہریرہ زیادہ حدیثیں کیوں بیان کرتے ہیں؟ خود انہوں نے اس کے دو سبب بیان کئے ہیں، پہلا تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باشی کی سعادت انہی کو حاصل تھی، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا مہاجر صحابہ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے، اپنی تجارت اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہمہ وقت حاضر نہیں رہتے تھے، اسی طرح انصار صحابہ اپنی زمین جائیداد کی مصروفیت جیسے کھجور کے باغات کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی وغیرہ میں لگے رہنے کے سبب بارگاہ نبوت میں خاص خاص اوقات میں ہی حاضر ہوتے تھے ان سب کے برعکس حضرت ابوہریرہ ؓ کا نہ گھر بار تھا نہ کاروبار، زراعت اور نہ معاشی زندگی کی کوئی مشغولیت، وہ تو ایک مفلس وقلاش انسان تھے ان کی قناعت کے لئے یہی بہت کافی تھا کہ کہیں سے کھانے پینے کی کوئی چیز آگئی اور انہوں نے اپنی بھوک مٹالی، اس کے علاوہ اور کسی چیز کی نہ ان کو ضرورت تھی اور نہ خواہش اس وجہ سے وہ اپنا تقریبا سارا وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر باشی میں گزارتے تھے اور اسی بناء پر آنحضرت ﷺ کے احوال و معاملات کو دیکھنے اور آپ ﷺ کے ارشادات کو سننے کا سب سے زیادہ موقع ان ہی کو ملتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جو دوسرا سبب بیان کیا وہ دراصل ارشادات نبوی ﷺ کو سن کر جوں کا توں اپنے دماغ میں محفوظ رکھنے کا وہ خصوصی وصف تھا جو ایک سعادت کے طور پر انہیں اعجاز نبوی کے طفیل میں حاصل ہوا، اس سعادت کے حصول کی جو صورت پیش آئی اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس کا ذکر جن الفاظ میں کیا اس کی وضاحت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ چاہتے تھے کہ میری امت کے جو لوگ مجھ سے حدیث سنیں وہ اس کو اچھی طرح یاد رکھیں تاکہ اس کے ذریعہ ہدایت وصلاح کا سلسلہ بلاکم وکاست جاری رہے، چناچہ آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ اس وقت میں اپنے پروردگار سے یہ دعا کرنے جارہا ہوں کہ میرے صحابہ میری جو حدیثیں سنیں وہ ان کے دماغ میں پوری طرح محفوظ رہیں۔ لہٰذا اس موقع پر جو شخص اپنا کپڑا پھیلالے گا اور میری دعا ختم ہونے تک اس کپڑے کو پھیلائے رکھے گا اور اس کے بعد پھر اس کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لے گا تو اس دعا کی برکت سے، جو پہلے کپڑے میں اور پھر کپڑے کے ذریعہ سینہ تک پہنچے گی اس کا حافظہ اس قدر قوی ہوجائے گا کہ وہ میری جو حدیث سنے گا اس کو زندگی بھر کبھی نہیں بھولے گا، چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اپنی کملی کو جو اس وقت ان کے پاس واحد کپڑا تھا، فورا پھیلا دیا آنحضرت ﷺ نے دعا مانگنی شروع کردی اور جب تک آپ دعا مانگتے رہے، حضرت ابوہریرہ اپنی کملی پھیلائے بیٹھے رہے، جب آنحضرت نے دعا ختم کرلی تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے کملی کو سمیٹ کر اپنے سینہ سے لگا لیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت ابوہریرہ آنحضرت ﷺ سے جو بھی ارشاد گرامی سنتے وہ جوں کا توں آپ کے دماغ میں محفوظ ہوجاتا اس طرح آپ کا سینہ اور دماغ احادیث نبوی ﷺ کا محفوظ گنجینہ بن گیا۔
Top