مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5830
وعن أنس قال أصابت الناس سنة على عهد النبي صلى الله عليه و سلم فبينا النبي صلى الله عليه و سلم يخطب في يوم جمعة قام أعرابي فقال يا رسول الله هلك المال وجاع العيال فادع الله لنا فرفع يديه وما نرى في السماء قزعة فوالذي نفسي بيده ما وضعها حتى ثار السحاب أمثال الجبال ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته صلى الله عليه و سلم فمطرنا يومنا ذلك ومن الغد وبعد الغد والذي يليه حتى الجمعة الأخرى وقام ذلك الأعرابي أو قال غيره فقال يا رسول الله تهدم البناء وغرق المال فادع الله لنا فرفع يديه فقال اللهم حوالينا ولا علينا فما يشير بيده إلى ناحية من السحاب إلا انفرجت وصارت المدينة مثل الجوبة وسال الوادي قناة شهرا ولم يجئ أحد من ناحية إلا حدث بالجود وفي رواية قال : اللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر . قال : فأقلعت وخرجنا نمشي في الشمس متفق عليه
بارش سے متعلق قبولیت کا معجزہ
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ( ایک مرتبہ خشک سالی کی وجہ سے قحط پڑگیا، انہی دنوں نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے مال و اسباب ( یعنی کھیتی باڑی) مویشی اور باغات پانی نہ لینے کی وجہ سے) برباد ہوگئے اور اہل و عیال بھوکے بلبلا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ آپ ﷺ نے ( یہ سنتے ہی) اپنے دست مبارک ( دعا کے لئے) اٹھا دیئے اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی ہمیں نظر نہیں آرہا تھا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آپ ﷺ نے ( دعا ختم کر کے) ابھی اپنے ہاتھ نہ چھوڑے تھے کہ اچانک پہاڑوں کی مانند بادل اٹھا اور آپ ﷺ منبر سے نیچے نہ اترنے پائے تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کی ریش مبارک پر گرنے لگا تھا پھر اس ( جمعہ کے) دن ( کے باقی حصے میں) پانی برسا دوسرے روز برسا اور تیسرے روز برسا یہاں تک کہ دوسرے جمعہ تک اس بارش کا سلسلہ جاری رہا اور ( جب مسلسل بارش جاری رہنے کی وجہ سے لوگوں کا نقصان ہونے لگا تو) دوسرے جمعہ کو ( آنحضرت ﷺ کے خطبہ کے دوران) وہی دیہاتی ( یا کوئی دوسرا شخص) کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! مکان گر رہے ہیں اور مال و اسباب ڈوب رہے ہیں آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمائیے ( کہ بارش تھم جائے۔ آنحضرت ﷺ نے ( یہ سن کر) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی! اے اللہ! ہمارے اطراف میں ( یعنی کھیتوں اور باغات پر) برسا، ہمارے اوپر ( یعنی ہمارے گھروں پر) نہ برسا۔ ( اس دعا کے بعد) آپ ﷺ جس طرف اشارہ کرتے جاتے تھے ابر اس جانب سے کھلتا جاتا تھا یہاں تک کہ مدینہ کے ایک گول گڑھے کی مانند ہوگیا ( یعنی مدینہ شہر کے باہری حصوں میں چاروں طرف بادل چھائے ہوئے تھے اور بارش ہو رہی تھی جب کہ بیچ میں مدینہ شہر کا مطلع باکل صاف ہو کر گول گڑھے کی طرح ایسا نمایاں ہوگیا تھا کہ پوری آبادی کے اوپر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا) اور مدینہ کے باہری اطراف میں مسلسل بارش کی وجہ سے) وہ نالہ جس کا نام قناۃ تھا ایک مہینہ تک بہتا رہا۔ ان اطراف سے جو بھی شخص ( مدینہ شہر میں) آیا اس نے کثرت سے بارش ہونے کی خبر دی۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یوں دعا فرمائی اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پر، پہاڑوں پر، نالوں کے اندر اور درختوں کے اگنے کی جگہ ( یعنی کھیتی و باغات) پر برسا۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ( اس دعا کے بعد شہر کے باہر اطراف میں تو بارش ہوتی ہی، لیکن آبادی کے حصہ میں) ابر بالکل کھل گیا اور ہم اس حال میں باہر نکلے کہ دھوپ میں چل رہے تھے۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
لفظ یتحادر اصل میں تو ینزل ویقطر کے معنی ظاہر کرتا ہے لیکن یہاں حدیث میں یہ لفظ یتساقط کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ بارش کا پانی براہ راست آپ ﷺ کی ریش مبارک پر گر رہا تھا۔ مشکوۃ کے بعض نسخوں میں علی لحیۃ کے الفاظ ہیں اور ترجمہ میں اسی کا لحاظ رکھا گیا ہے لیکن بعض نسخوں میں عن لحیۃ کے الفاظ ہیں چناچہ حضرت شیخ عبد الحق نے اس کے اعتبار سے یہ ترجمہ کیا ہے کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کی ریش مبارک پر ٹپکنے لگا تھا۔۔۔ حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ نے بارش کی دعا فرمائی اور ابھی آپ ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں تھے اور مسجد سے باہر نہیں نکلے تھے کہ زور دار بارش شروع ہوگئی۔ امام نووی (رح) نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بارش کا سلسلہ زیادہ شدت کے ساتھ طویل ہوجائے اور اس کی وجہ سے مکانات وغیرہ کو نقصان پہنچنے لگے تو یہ دعا مانگنا مستحب ہے کہ اے اللہ اب ہمارے گھروں پر بارش نہ برسا! لیکن اس دعا کے لئے نماز پڑھنا اور آبادی سے باہر جنگل و میدان میں جا کر دعا مانگنا، جیسا کہ استسقاء کی نماز کا حکم ہے) مشروع نہیں ہے۔
Top