مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5844
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنكم ستفتحون مصر وهي أرض يسمى فيها القيراط فإذا فتحتموها فأحسنوا إلى أهلها فإن لها ذمة ورحما أو قال : ذمة وصهرا فإذا رأيتم رجلين يختصمان في موضع لبنة فاخرج منها . قال : فرأيت عبد الرحمن بن شرحبيل بن حسنة وأخاه يختصمان في موضع لبنة فخرجت منها . رواه مسلم
فتح مصر کی پیش گوئی
اور حضرت ابوذر غفاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یقینا وہ وقت قریب ہے، جب تم مصر کو فتح کر لوگے اور مصر وہ زمین ہے جہاں قیراط بولا جاتا ہے۔ جب تم مصر کو فتح کرلو تو وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ ان کو امان ہے اور ان سے قرابت ہے۔ یا یہ فرمایا کہ۔ ان کو امان ہے۔ اور ان سے سسرالی رشتہ ہے اور جب تم لوگ دیکھو کہ وہاں دو آدمی ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑا کرتے ہیں، تو تم وہاں سے نکل آنا۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے ( اپنے قیام مصر کے دوران) عبدالرحمن ابن شرجیل ابن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے دیکھا تو سر زمین مصر سے نکل آیا۔ ( مسلم)

تشریح
قیراط ایک سکہ کا نام تھا جو پانچ جو سونے کے برابر ہوتا تھا اور اس زمانہ میں مصر میں رائج تھا، مصر کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی قیراط کا چلن تھا اور مختلف اوزان ومالیت رکھتا تھا مثلا مکہ معظمہ اور اس کے علاقوں میں ایک قیراط دینار کے چوبیس حصہ کے برابر اور عراق میں دینار کے بیسویں حصہ کے برابر ہوتا تھا۔ جہاں قیراط بولا جاتا ہے کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ نے اس کے سکہ سے مصر کا تعارف کرایا اور پتہ بتایا بلکہ اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اس ملک کے لوگ، جو اس وقت قبطی کافر تھے، دناء ۃ اور خست کا مزاج رکھتے تھے جس کی علامت یہ ہے کہ ان کی زبان پر قیراط کا ذکر بہت رہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ عالی حوصلہ اور کریم النفس ہوتے ہیں ان کی زبان پر حقیر وخسیس چیزوں کا ذکر زیادہ نہیں رہتا۔ وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اس ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ مصری لوگ اپنی مخصوص مزاجی کیفیت ( یعنی دناء وخست) کے اعتبار سے تم لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ تمہیں اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ اگر تم ان کے ایسے افعال و اعمال دیکھو جو تمہارے نزدیک برے ہوں اور ان سے تمہیں ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچتی ہو تو تم بہر حال ان سے عفو و درگزر کا معاملہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ ان کی کسی بات یا کسی فعل سے مشتعل ہو کر تم ان کو تکلیف پہنچانے کے درپے ہوجاؤ۔ اور یہ ہدایت اس لے ہے کہ مصریوں سے ہمارے دو خصوصی تعلق ہیں ایک تو اس امان و حرمت کے سبب جو ہمارے بیٹے ابراہیم ابن محمد ﷺ کی نسبت سے مصریوں کو حاصل ہے، ابراہیم کی والدہ جن کا نام ماریہ قبطیہ تھا، مصری قوم ہی سے تعلق رکھتی تھیں اور ان سے دوسرا تعلق یہ ہے کہ ہمارے جد امجد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسبت سے مصریوں سے ہماری قرابت بھی ہے، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ حضرت ہاجرہ مصری النسل تھیں۔ یا یہ فرمایا کہ۔ ان کو امان ہے اور ان سے سسرالی رشتہ ہے۔ یہاں الفاظ اوشک کے لئے ہے جس کے ذریعہ راوی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو فان لہا ذمۃ ورحما کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے، یا فان لہا ذمۃ وصھرا کے الفاظ، اس دوسری روایت کی صورت میں ذمہ ( امان) کا تعلق حضرت ہاجرہ کی نسبت سے ہوگا اور مصاہرت ( سسرالی رشتہ) کا تعلق حضرت ماریہ قبطیہ کی نسبت سے۔ جب تم لوگ دیکھو کہ وہاں دو آدمی۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے گویا اہل مصر کی ( دناءۃ اور خست کا حال بیان فرمایا کہ وہ لوگ ایک ایک اینٹ کی جگہ کے لئے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اس جملہ میں جو را تم ( تم لوگ دیکھو) کا لفظ ( بصغیہ جمع) فرمایا گیا ہے، اس کی مناسبت سے آگے جمع ہی کے صیغہ فاخر جوا ( تو تم لوگ وہاں سے نکل آنا) کا لفظ استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن آپ ﷺ نے واحد کا صیغہ و اخرج استعمال فرما کر صرف حضرت ابوذر کو خطاب فرمایا جو حضرت ابوذر کے تئیں آنحضرت ﷺ کے خصوصی تعلق اور کمال شفقت پر دلالت کرتا ہے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمومی ہی مراد ہو۔ مصر حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے زمانہ میں فتح ہوا اور حضرت ابوذر غفاری ؓ نے وہاں اپنے قیام کے دوران دو آدمیوں کو ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑتے دیکھا تو فورا مصر چھوڑ کر چلے آئے، یہ حضرت عثمان غنی کی خلافت کے زمانہ کا واقعہ ہے۔ پس آنحضرت ﷺ کو غیب سے معلوم ہوگیا تھا کہ ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑنا دراصل مصریوں کی خصومت، جنگ جوئی اور فتنہ آرائی کی وہ علامت ہوگی جس کے پیچھے فتنہ و فساد اور شرانگیزی کا جنم لینا والا ایک طویل سلسلہ چھپا ہوگا اور جس کے نتیجہ میں مسلامانوں اور اسلام کو زبر دست نقصان سے دوچار ہونا ہوگا، چناچہ بعد میں مصریوں کا خلافت عثمانی سے بغاوت کرکے مدینہ پر چڑھ آنا، حضرت عثمان کو شہید کردینا اور پھر مصر میں حضرت علی کی طرف سے تعینات حاکم حضرت محمد ابن ابوبکر کو قتل کردینا وہ واقعات ہیں جن کا علم آنحضرت ﷺ کو پہلے ہوگیا تھا، اسی لئے آپ ﷺ نے حضرت ابوذر کو ہدایت اور وصیت فرمائی کہ جب مصر میں ذرا سی بات میں دو آدمیوں کے درمیان جھگڑا ہونے لگے تو تم ان سے ملنے جلنے ان کے درمیان رہنے اور ان کے ملک میں قیام کرنے سے اجتناب کرنا، چناچہ حضرت ابوذر نے ایسا ہی کیا۔
Top