مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5862
وعن ابن عباس قال تشاورت قريش ليلة بمكة فقال بعضهم إذا أصبح فأثبتوه بالوثاق يريدون النبي صلى الله عليه و سلم وقال بعضهم بل اقتلوه وقال بعضهم بل أخرجوه فأطلع الله عز و جل نبيه صلى الله عليه و سلم على ذلك فبات علي على فراش النبي صلى الله عليه و سلم تلك الليلة وخرج النبي صلى الله عليه و سلم حتى لحق بالغار وبات المشركون يحرسون عليا يحسبونه النبي صلى الله عليه و سلم فلما أصبحوا ثاروا إليه فلما رأوا عليا رد الله مكرهم فقالوا أين صاحبك هذا قال لا أدري فاقتصوا أثره فلما بلغوا الجبل اختلط عليهم فصعدوا في الجبل فمروا بالغار فرأوا على بابه نسج العنكبوت فقالوا لو دخل هاهنا لم يكن نسج العنكبوت على بابه فمكث فيه ثلاث ليال . رواه أحمد
شب ہجرت کا واقعہ اور غار ثور کے محفوظ ہونے کا معجزہ
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ قریش مکہ نے ایک روز رات کے وقت (دارالندوہ) میں اپنی مجلس مشاورت منعقد کی (جس میں ابلیس شیطان بھی ایک نجدی شیخ کی صورت میں شریک ہوا) چناچہ بعض نے یہ مشورہ دیا کہ صبح ہوتے ہی اس شخص کی مشکیں کس لو (یعنی رسیوں سے باندھ کر قید میں ڈال دو ) اس شخص سے مراد نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی تھی، بعض نے یہ رائے دی کہ (نہیں بلکہ اس کو قتل کرڈالو اور بعض نے (حقارت کے ساتھ) یہ کہا کہ اس کو اپنی سر زمین سے نکال کر باہر کرو یعنی جلاوطن کردو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ) اپنے نبی ﷺ کو (قریش مکہ کے مشورہ و فیصلہ سے) آگا کردیا (اور حکم دیا کہ آپ ﷺ آج کی رات اپنے بستر پر حضرت علی کو سلادیں اور (ابو بکر کو ساتھ لے کر) مکہ سے نکلے اور غار ثور میں جا چھپے، ادھر قریش مکہ نے یہ سمجھ کر پوری رات علی کی نگرانی میں رات گزاردی کہ وہ نبی کریم ﷺ ہیں (یعنی گھر کے اندر آنحضرت ﷺ کے بستر پر تو حضرت علی سوئے ہوئے تھے اور قریش مکہ آنحضرت ﷺ کو سویا ہوا سجھ کر پوری رات گھر کی نگرانی کرتے رہے) یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو انہوں نے (یعنی قریش مکہ نے) اس (بستر) پر (کہ حضرت علی سوئے ہوئے تھے، آنحضرت ﷺ کا گمان کرکے) دھاوا بول دیا لیکن جب انہوں نے (آنحضرت ﷺ کے بجائے) حضرت علی کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بدخواہی کو انہی پر لٹا دیا تو (وہ بڑے سٹپٹائے اور) حضرت علی ؓ سے پوچھنے لگے کہ تمہارا یہ دوست (جس کا یہ بستر ہے یعنی محمد ﷺ کہاں گیا؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ مجھ کو نہیں معلوم۔ قریش مکہ (صورت حال کو سمجھ کر فوراحرکت میں آگئے اور آپ ﷺ کو ڈھونڈھ کر پکڑ لانے کے لئے) آپ ﷺ کے قدموں کے نشان پر آپ ﷺ کے تعاقب میں نکل پڑے، یہاں تک کہ جبل ثور تک پہنچ گئے مگر وہاں قدموں کے نشان مشتبہ ہوگئے تھے (جس کی وجہ سے ان کو آگے رہنمائی نہیں مل سکی) پھر وہ پہاڑ کے اوپر گئے اور ادھر ادھر ٹوہ لگاتے ہوئے) غار کے منہ پر پہنچ گئے (ان کا گمان تھا کہ آنحضرت ﷺ اس غار میں چھپے ہوں گے) لیکن انہوں نے غار کے اوپر گئے اور ادھر ادھر ٹوہ لگاتے ہوئے) غار کے منہ پر پہنچ گئے (ان کا گمان تھا کہ کہ آنحضرت ﷺ اس غار میں چھپے ہوں گے) لیکن انہوں نے غار کے منہ پر مکڑی کا جالا دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر محمد ﷺ اس غار میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے منہ پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا (اس طرح وہ لوگ وہاں سے مایوس ہو کر واپس ہوگئے) اور آنحضرت ﷺ تین رات دن اسی غار میں چھپے رہے۔ (احمد )

تشریح
آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ کو یہ معلوم ہوا کہ محمد ﷺ کی دعوت اسلام مدینہ تک پہنچ گئی ہے اور وہاں کے متعدد لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ہیں تو انہیں سخت تشویش ہوئی، اس مسئلہ پر غور وفکر اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے لئے ان کے سارے بڑے بڑے سردار اور زعماء دارالندوہ میں جمع ہوئے، عین اس وقت جب کہ ان سرداروں کی مشاورتی مجلس شروع ہونے والی تھی ابلیس ایک بوڑھے اور تجربہ کا رظاہر ہونے والے شخص کی صورت میں اس مشاورتی مجلس میں پہنچا اور بولا کہ میں نجد سے آیا ہوں، جب مجھے تو لوگوں کے اس اجتماع کا علم ہوا تو میری خواہش ہوئی کہ میں بھی تمہارے اس اجتماع میں شریک ہو کر کوئی مناسب اور کار گر رائے پیش کروں بلاشبہ عقل و دانائی اور خیرخواہی میں تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھا ہوا نہیں ہے حاضرین مجلس ابلیس کی اس بات سے بہت متاثر ہوئے اور اس کو عزت و احترام کے ساتھ اپنے درمیان جگہ دی۔ اس کے بعد اس مشاورتی کمیٹی کی کار وائی کا آغاز ہوا اور مختلف لوگوں کی طرف سے اظہار خیال وآراء کا سلسلہ شروع ہوگیا، ابوالبختری نے کہا میری رائے یہ ہم کہ اس شخص محمد ﷺ کو قید کرکے کسی ایسی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند کردو جس میں آمدورفت کو کوئی ذریعہ اور کوئی دروازہ ودر کھلا نہ رہ جائے، صرف ایک ایسا بڑا سوراخ باقی رکھا جائے، جس میں سے اس کے کھانے پینے کی چیزیں ڈال دی جایا کریں اور اس کو اس کوٹھڑی میں اس وقت تک محبوس رکھنا چاہیے جب تک کہ وہ اس میں پڑاپڑا مر نہ جائے۔ یہ سن کر اس شیخ نجدی (کی صورت میں ابلیس نے کہا یہ رائے نہایت غیرموزوں ہے کیونکہ جب تم اس کو قید کروگے تو اس کے خاندان کے لوگ اس کے عزیز و اقا رب تم پر دھاوا بول دیں گے اور جنگ وجدل کے ذریعہ تمہاری قید سے اس کو آزاد کرا کے لے جائیں گے۔ پھر ہشام ابن عمرو نے یہ رائے دی کہ اس شخص کو اچھی طرح ذلیل ورسوا کر کے ایک اونٹ پر سوار کرا دو اور اپنی سر زمین سے باہر نکال دو، وہ یہاں جلاوطن ہو کر جہاں کہیں جائے گا اور وہاں اپنے دین کی اشاعت میں جو کچھ کرے گا اس سے کم از کم تم لوگ تو محفوظ رہوگے۔ ابلیس نے اس رائے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح تو اس شخص کو کھیل کھیلنے کا خوب موقعہ مل جائے گا اور یہاں سے کہیں اور جا کر اپنی مظلومیت کے قصے سنائے گا اور لوگوں کی اپنی طرف متوجہ کرے گا، اگرچہ یہاں کے لوگ اس کی دعوت سے محفوظ رہیں گے مگر وہ دوسری جگہ کے لوگوں کو اپنا ہمنوا اور ہمدرد بنا لے گا اور پھر ان لوگوں کی مدد سے طاقت پاکر تم پر حملہ آور ہوجائے گا آخر میں لعین ابوجہل بولا اور اس نے رائے دی کہ تم لوگ ہر قبیلہ و خاندان میں ایک ایک نوجوان منتخب کرلو اور ان سب کو تلواریں دے کر کہو کہ وہ سب ایک ساتھ اس شخص پر اپنی تلواروں سے حملہ کرکے اس کا کام تمام کردیں، اس طرح اس کا خون تمام قبیلوں اور خاندانوں میں پھیل جائے گا یعنی اس کے قتل کا کوئی ایک قبیلہ و خاندان ذمہ دار ہونے کے بجائے اجتماعی جنگ کرنے اور اس شخص کے خون کا قصاص لینے سے عاجز ہوں گے۔ اور مجبورًا دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دیت طلب کریں گے تو ہم سب مل کر ان کو دیت دے دیں گے اور قصہ تمام ہوجائے گا ابلیس نے اس رائے کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ اس جوان نے بالکل صحیح بات کہی پھر تو سب لوگ ہی ابوجہل کی رائے پر متفق ہوگئے اور یہی طے پایا کہ آج رات بھر محمد ﷺ کے گھر کا محاصرہ رکھا جائے اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کرکے قصہ تمام کردیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیج کر قریش کی اس سازشی کاروائی سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کردیا کہ آپ ﷺ اپنے بستر پر حضرت علی کو سلا کر ابوبکر کے ساتھ ہجرت کے ارادہ سے رات ہی میں مکہ سے نکل جائیں، قرآن کریم کی اس آیت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ واذ یمکربک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک۔ اور جب (مکہ کے) کافر آپ ﷺ کے بارے میں یہ سازش کر رہے تھے کہ آپ ﷺ کو قید میں ڈال دیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ ﷺ کو جلاوطن کر ڈالیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کو سلادیا اور خود حضرت ابوبکر کو لے کر راتوں رات مکہ سے نکل کر جبل ثور کے ایک غار میں جا چھپے اس وقت جب کہ قریش مکہ کی ایک خونخوار جماعت آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھی، آپ ﷺ کا گھر سے باہر نکلنا اور ان کافروں کا آپ ﷺ کو گھر سے نکلتے ہوئے دیکھنا، پھر ان سے آپ ﷺ کا گفتگو کرنا اور ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے صاف بچ کر نکل جانا ایک حیرت انگیز قصہ اور زبردست معجزہ تھا جس تفصیل تاریخ سیر کتابوں میں مذکور ہے۔ بحرحال قریش مکہ اپنے اس گمان کے مطابق کہ محمد ﷺ گھر کے اندر نہیں سوئے ہوئے تھے رات بھر آپ ﷺ کے گھر کی نگرانی کرتے رہے ان کا منصوبہ تھا کہ پوری رات آپ ﷺ کی نگرانی رکھنے کے بعد صبح سویرے گھر میں گھس پڑیں گے اور آپ ﷺ کا کام تمام کردیں گے حالانکہ گھر کے اندر تو حضرت علی سوئے ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ ان کی نظروں کے سامنے سے باہر نکل گئے تھے، چناچہ صبح ہوتے ہی جب انہوں نے گھر کے اندر دھاوا بول دیا تو وہاں حضرت علی کو دیکھ کر سخت حیران ہوئے اور فورا آپ ﷺ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے وہ آپ ﷺ کے قدموں کے نشان دیکھ دیکھ کر جبل ثور تک پہنچ گئے اور پھر اس غار کے منہ پر بھی جاپہنچے، جہاں آپ ﷺ حضرت ابوبکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے، اس جگہ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کا معجزہ ظاہر ہوا جس غار کے اندر آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر چھپے ہوئے تھے اس کا منہ صرف ایک بالشت چوڑا اور ایک ہاتھ لمبا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی وقت دو کبوتر بھیج دئے جنہوں نے غار کے منہ کے نیچے کی جانب انڈے دئیے اور قدرت الہٰی کے حکم سے ایک مکڑی نے آکر جبھی غار کے منہ پر جلا تن دیا، ایسی صورت میں قریش مکہ کے ان گماشتوں کو، جو آنحضرت ﷺ کے تعاقب میں غار تک پہنچ گئے تھے، یہ خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ اس غار کے اندر دو انسان چھپے ہوئے ہیں، لہٰذا وہ اس جگہ سے مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ ایک روایت میں تو یہ بھی آیا ہے کہ قریش مکہ کے وہ گماشتے غار کے منہ کے قریب ایسی جگہ پہنچ گئے تھے کہ اگر ان کی نظر اپنے پیروں کی طرف چلی جاتی تو بڑی آسانی سے وہ لوگ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کو غار کے اندر دیکھ لیتے، حضرت ابوبکر غار کے اندر سے ان لوگوں کو اپنے سر پر کھڑا دیکھ ہی رہے تھے انہیں آنحضرت ﷺ کے تئیں سخت تشویش ہوئی، چناچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اپنے خوف کا اظہار کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ان دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ تعالیٰ ہے (یعنی ہم دونوں یہاں بےیارومددگار نہیں ہیں بلکہ ایک تیسری ذات یعنی اللہ تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ ہے جو یقینا ہم دونوں کی حفاظت کرے گا چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو اس طرح بےبصر کردیا کہ وہ غار کے چاروں طرف گھوم گھوم کر دیکھتے تھے لیکن غار کے اندر آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر کو دیکھ نہیں پائے۔ تفسیر بحرالعلوم میں اس آیت ( اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِه لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) 9۔ التوبہ 40)۔ کے تحت لکھا ہے کہ اس آیت میں صاحب (ساتھی) سے مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں، جو ہجرت کی رات میں اس موقع پر جب کہ کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا پختہ ارادہ کرلیا تھا، آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ سے نکلے تھے اور دونوں غار ثور میں جا کر چھپ گئے تھے اس غار میں ابوبکر نے جب دیکھا کہ کفار مکہ غار کے منہ تک آپہنچے ہیں تو آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اگر ان کفار میں کسی نے بھی اپنے پیروں کی طرف سے دیکھا تو اس کی نظر یقینا ہم تک پہنچ جائے گئی، اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ (فکر و تشویش کی کوئی بات نہیں ہے) اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر ان دو آدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہیں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی صحابیت کا منکر، نص قرآن کے انکار کے سبب کافر ہے جب کہ دوسرے صحابہ کی صحابیت کا منکر کافر بلکہ مبتدع ہے۔ واقعہ ہجرت کے سلسلہ میں جو روایت حضرت عائشہ ؓ منقول ہے اس میں انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ میرے والدین اپنے زمانہ عقل وبلوغ کی ابتداء ہی سے دیندار تھے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا کہ آنحضرت ﷺ ہمارے ہاں صبح وشام نہ آتے ہوں، جب مسلمانوں پر کفار مکہ کا ظلم وستم اپنے عروج کو پہنچ گیا تو آنحضرت ﷺ نے (ایک دن) میرے والد حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ تمہارا دارالہجرت مجھے دکھایا گیا ہے، وہ دو سنگتانوں کے درمیان کھجوروں کے باغات والی ایک بستی ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے حکم سے مسلمانوں کا مدینہ کو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے والے مسلمان بھی مدینہ آگئے اسی بناء حضرت ابوبکر نے بھی مدینہ کو ہجرت کی تیاری شروع کی لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر! ابھی توقف کرو، میں امید رکھتا ہوں کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت ملنے والی ہے اس دن سے حضرت ابوبکر کا یہ حال ہوگیا کہ وہ ہر وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے کسی موقع پر بھی آپ ﷺ سے جدا نہیں ہوتے تھے، علاوہ ازیں انہوں نے پہلے ہی سے دو اونٹ مہیا کرلئے تھے جو کسی بھی وقت روانگی کی تیاری کے ساتھ چار مہینے تک گھر میں بندھے کھڑے رہے تاآنکہ ایک دن ٹھیک دوپہر میں آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو ہجرت کی اجازت مل گئی ہے، حضرت ابوبکر نے ایک اونٹ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، عائشہ اور اسماء نے زاد راہ تیار کیا اور پھر اسی دن جو ربیع الاول ١٤ نبوی کی تاریخ تھی اور پنجشنبہ کا دن تھا، رات کے وقت آپ ﷺ (اپنے مکان سے نکل کر) حضرت ابوبکر کے گھر آئے اور وہاں سے یہ دونوں روانہ ہو کر جبل ثور کے ایک غار میں جا چھپے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسی رات میں اس غار کے منہ پر کیکر کا درخت اگ آیا، جنگلی کبوتر نے غار کے منہ پر گھونسلہ بنا کر انڈے دئیے اور مکڑی نے جالا تن دیا، کفار مکہ جب اس غار کے قریب پنچے تو اس کے حصہ پر ایسی عامتیں دیکھ کر جو غار کے اندر کسی شخص کی موجودگی کی نفی کرتی تھیں محروم و مایوس واپس لوٹ گئے۔ نیز جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر رات کی تاریکی میں مکہ سے روانہ ہوئے تو پورے راستہ حضرت ابوبکر کبھی آنحضرت ﷺ کے آگے چلتے تھے اور کبھی پیچھے ہوجاتے تھے اور اس کا مقصد اس بات کی نگرانی رکھنا تھا کہ کوئی کافر آگے سے یا پیچھے سے آکر اچانک دھاوا نہ بول دے، پھر جب غار کے قریب پہنچے تو انہوں نے انہوں نے آنحضرت ﷺ کو باہر کھڑا کیا اور پہلے خود غار کے اندر جا کر اس کو صاف کیا اور آنحضرت ﷺ کو غار کے اندر لے گئے، یہ دونوں تین راتیں اسی غار میں چھپے رہے انہیں نے اپنے دونوں اونٹ بن الدئل کے ایک شخص کے حوالہ کرکے اس کو اس بات پر تیار کرلیا تھا کہ وہ تین راتیں گزرنے پر ان اونٹوں کو لے کر غار کے قریب موجود رہے، نیز اس کو معقول معاوضہ دیا گیا اور اس کام کے لئے بھی آمادہ کرلیا تھا کہ وہ مدینہ تک رہبری کے فرائض انجام دے، غار ثور میں قیام کے دوران تینوں راتوں حضرت عبداللہ بن ابوبکر کفار مکہ کے تمام حالات اور دن بھر کی تمام کار روائیوں سے رات کے وقت آکر مطلع کرتے رہے پھر تین راتوں کے بعد یہ دونوں حضرات اپنے اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اس رہبر کو ساتھ لے کر عام راستہ کے بجائے ساحل سمندر کے ساتھ والے راستہ کے ذریعہ مدینہ کو روانہ ہوئے، جب بنی مدلج کے علاقوں میں پہنچے تو پیچھے سے سراقہ ابن مالک آپہنچا جو قریش مکہ کی طرف سے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر یا ان دونوں کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لانے کے عوض بھاری انعام کے لالچ میں ان کا تعاقب کررہا تھا، جب وہ دونوں کے قریب پہنچا تو اچانک اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ زمین پر گرپڑا اور پھر اٹھ کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اتنا قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت ﷺ کی گفتگو اس کو سنائی دینے لگی اور عین اس وقت کہ وہ دھاوا بولنا چاہتا تھا اس کے گھوڑے کے دونوں پاؤں زانوں تک زمین میں دھنس گئے اور سراقہ الٹے منہ زمین پر گرپڑا اب اس کو تنبہ ہوا اور وہ گڑ گڑا کر امان کی دہائی دینے لگا، آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر اس کی آواز سن کر کھڑے ہوگئے سراقہ نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ زاد راہ پیش کرنا چاہا لیکن آنحضرت ﷺ نے قبول نہیں فرمایا البتہ اس کو معاف کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا چناچہ سراقہ وہاں سے لوٹا اور راستہ میں جو بھی کافر آنحضرت ﷺ کے تعاقب میں آتا ہوا ملتا اس کو تدبیروں سے واپس کردیتا تھا اس طرح آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر بحفاظت تمام مدینہ پہنچ گئے۔
Top