مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5863
وعن أبي هريرة أنه قال لما فتحت خيبر أهديت لرسول الله صلى الله عليه و سلم شاة فيها سم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود فجمعوا له فقال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم إني سائلكم عن شيء فهل أنتم صادقي عنه فقالوا نعم يا أبا القاسم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم من أبوكم قالوا فلان فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم كذبتم بل أبوكم فلان فقالوا صدقت وبررت قال : هل أنتم مصدقي عن شيء إن سألتكم عنه قالوا نعم يا أبا القاسم وإن كذبناك عرفت كما عرفته في أبينا قال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم من أهل النار قالوا نكون فيها يسيرا ثم تخلفوننا فيها فقال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم اخسئوا فيها والله لا نخلفكم فيها أبدا ثم قال لهم فهل أنتم مصدقي عن شيء إن سألتكم عنه قالوا نعم يا أبا القاسم قال : هل جعلتم في هذه الشاة سما . قالوا نعم فقال ما حملكم على ذلك فقالوا أردنا إن كنت كذابا نستريح منك وإن كنت نبيا لم يضرك . رواه البخاري
خیبر کے یہودیوں کے متعلق معجزہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوگیا تو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی بکری بطور ہدیہ پیش کی گئی جس میں زہر ملا ہوا تھا، رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس جگہ (خیبر میں) جتنے یہودی ہوں سب کو میرے پاس لایا جائے، چناچہ تمام یہودیوں کو جمع کر کے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا، رسول کریم ﷺ نے ان (یہودیوں) سے فرمایا کیا میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں (اور یہ کہ اگر تم نے میرے سوال کا جواب غلط دیا اور میں نے اس کی تردید کی تو) تم میری اس بات کو باور کروگے؟ یہودیوں نے کہا ہاں ابوالقاسم (ہم آپ ﷺ کے سوال کا جواب دیں گے اور اگر آپ ﷺ نے ہمارے جواب کی صحیح تردید کی تو ہم اس کو باور کریں گے) پس رسول کریم ﷺ نے ان سے سوال کیا کہ تمہارا باپ (یعنی تمہارا جد اعلی جس کو قبیلہ کا باپ کہا جاتا ہے) کون ہے؟ یہودیوں نے (آنحضرت ﷺ کو پرکھنے کے لئے اپنے جداعلی کا صحیح نام نہیں بتایا بلکہ غلط طور پر کوئی اور نام لے کر) کہا کہ فلاں شخص ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم غلط کہتے ہو، تمہارا باپ فلاں شخص ہے یہودیوں نے کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا اور بجا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے فرمایا۔ اگر میں تم سے سوال کوئی اور کروں (اور تمہارے غلط جواب کی تردید کرتے ہوئے صحیح بات بتاؤں) تو کیا تم میری اس بات کو باور کر لوگے؟ یہودیوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ﷺ کو ہمارا جھوٹ معلوم ہوجائے گا جیسا کہ آپ ﷺ کو ہمارے باپ کے بارے میں (ہمارا غلط جواب) معلوم ہوگیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا (تو پھر بتاؤ) دوزخی کون ہے؟ (یہودیوں نے جواب دیا کچھ دن تو ہم لوگ رہیں گے اور پھر جب ہم دوزخ سے باہر آئیں گے تو) ہمارے جانشین تم لوگ ہوں گے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ارے کم بختو، پرے رہو دوزخ کے بارے میں ( اتنی جھوٹ بات مت کہو) اللہ کی قسم ہم دوزخ میں کبھی بھی تمہارے جانشیں نہ ہوں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں تم سے کوئی اور سوال کروں۔ (اور تمہارے غلط جواب کی تردید کرتے ہوئے صحیح بات بتاؤں) تو کیا تم میری اس بات کو باور کر لوگے؟ یہودیوں نے کہا کہ ہاں اے ابوالقاسم! آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا (اچھا بتاؤ) کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں آپ ﷺ نے پوچھا تمہیں کس چیز نے اس ذلیل حرکت پر اکسایا ہے انہوں نے کہا دراصل ہم نے سوچا تھا کہ اگر آپ ﷺ کا دعوی نبوت جھوٹا ہم تو (یہ زہر آپ ﷺ کی ہلاکت کا سبب بن جائے گا اور ہم کو آپ ﷺ سے نجات اور رحت مل جائے گی اور اگر آپ ﷺ اپنے دعوی میں سچے ہیں تو یہ (زہر) آپ ﷺ کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا (بخاری)

تشریح
ہاں اے ابوالقاسم آپ ﷺ کو مخاطب کرنے کا یہ یہودیوں کا خاص اسلوب تھا، وہ بدنصیب آپ ﷺ کو محمد ﷺ کہہ کر مخاطب نہیں کرتے تھے، کیونکہ یہ مبارک نام تورات اور انجیل میں مذکور اور مشہور تھا جو آپ ﷺ کے دعوی نبوت کی واضح دلیل تھا لہٰذا تعصب اور مخاصمت کی بناء انہیں گوار نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے اس کا نام کا اظہار کریں جو خود ان کی آسمانی کتابوں کی رو سے پیغمبر آخر الزمان ﷺ کی صداقت کی علامت تھا۔ پھر ہمارے جانشین تم لوگ ہوگے یہودی مسلمانوں سے یہی کہا کرتے کہ جنت کے اصل مستحق ہم ہی ہیں، اگر ہم اپنی بدعملی کی وجہ سے دوزخ میں داخل بھی ہوگئے تو وہ چند دنوں کی سزا ہوگی، جب ہم اپنی سزا کی وہ مدت پوری کرکے دوزخ سے نکالے جائیں گے تو پھر تم مسلمانوں کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، جہاں تم لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہوگے ان کی اس بات کو قرآن کریم نے بھی یوں نقل کیا ہے لن تمسنا النار الا ایاما معدودات۔ (یہودی یوں کہتے ہیں کہ) ہم کو صرف گنتی کے تھوڑے دنوں تک دوزخ کی آگ لگے گی۔ یہ گویا ان یہودیوں کا عقیدہ تھا جو حقیقت کے اعتبار سے اعتقاد باطل اور زعم فاسد سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہم وہ اپنے اعتقاد کے مطابق جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اور آنحضرت ﷺ کے سوال کا جو جواب ان کے نزدیک صحیح تھا وہی انہوں نے بیان کیا۔ تو یہ زہر آپ ﷺ کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا یہودیوں کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میں نے تو محض امتحان و آزمائش کے جذبہ سے بکری میں زہر ملادیا تھا کہ اگر آپ ﷺ اپنی نبوت کے دعویٰ میں جھوٹے ہوں گے تو اس زہر آلود بکری کا گوشت کھا کر ہلاک ہوجائیں گے اور اس صورت میں ہمیں آپ ﷺ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ ﷺ کو نبی تسلیم کرلیں گے۔ یہ تو یہودیوں کی بات تھی اور وہ اپنے اس قول میں کہاں تک سچے تھے اس کا اندازہ تو اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب زہر نے آنحضرت ﷺ پر کوئی اثر نہیں کیا تو اس کے اپنے کہنے کے مطابق آنحضرت ﷺ کا نبی ہونا سچ ثابت ہوگیا تھا لیکن وہ لوگ نہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور نہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے باز آئے۔
Top