مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5870
وعن عاصم بن كليب عن أبيه عن رجل من الأنصار قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في جنازة فرأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو على القبر يوصي الحافر يقول : أوسع من قبل رجليه أوسع من قبل رأسه فلما رجع استقبله داعي امرأته فأجاب ونحن معه وجيء بالطعام فوضع يده ثم وضع القوم فأكلوا فنظرنا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم يلوك لقمة في فمه ثم قال أجد لحم شاة أخذت بغير إذن أهلها فأرسلت المرأة تقول يا رسول الله إني أرسلت إلى النقيع وهو موضع يباع فيه الغنم ليشترى لي شاة فلم توجد فأرسلت إلى جار لي قد اشترى شاة أن أرسل إلي بها بثمنها فلم يوجد فأرسلت إلى امرأته فأرسلت إلي بها فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أطعمي هذا الطعام الأسرى رواه أبو داود والبيهقي في دلائل النبوة
مشتبہ کھانا حلق سے نیچے نہیں اتر ا
اور حضرت عاصم ابن کلیب (رح) (تابعی) اپنے والد سے اور وہ ایک انصاری شخص (یعنی ایک انصاری صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا (ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز اور تدفین میں شرکت کے لئے گئے (قبرستان پہنچ کر میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ قبر (کے کنارہ) پر بیٹھ گئے اور گورکن کو ہدایت دینے لگے آپ ﷺ اس (گورکن) سے فرماتے تھے کہ پائنتی کی قبر کو کشادہ کردو اور سر کی جانب سے کشادہ کردو۔ پھر جب آپ ﷺ (تدفین سے فارغ ہو کر) واپس ہونے لگے، تو سامنے سے اس شخص نے آکر آنحضرت ﷺ کو میت کی بیوی کی طرف سے کھانے کی دعوت دی جس کو آپ ﷺ نے قبول فرما لیا (چنانچہ آنحضرت ﷺ اس کے گھر تشریف لے گئے اور) ہم بھی آپ ﷺ کے طفیل میں ساتھ ہولئے) جب کھانا لایا گیا تو آنحضرت ﷺ نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ بڑھائے اور کھانا کھانے لگے، لیکن پھر (کھانا کھاتے) ہم نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ (نے جو پہلا) لقمہ (منہ میں ڈالا تھا اسی) کو چبائے جارہے ہیں یعنی اپنے منہ میں ادھر ادھر گھما رہے ہیں (ابھی ہم حیرت سے یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ) آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اس گوشت کو ایک ایسی بکری کا گوشت محسوس کر رہا ہوں جس کو اس کی مالک کی اجازت و رضا کے بغیر لے لیا گیا ہے۔ اس عورت (کو آنحضرت ﷺ کی اس بات کا علم ہوا تو اس) نے آدمی بھیج کر صورت حال عرض کرائی کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں نے بکری خریدنے کے لئے ایک آدمی کو نقیع بھیجا تھا۔ وہ (نقیع) ایک جگہ کا نام ہے جہاں بکریوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ لیکن وہاں بکری دستیاب نہیں ہوئی تو میں نے اپنے ہمسایہ کے پاس آدمی بھیجا جس نے ایک بکری خرید رکھی تھی اور کہلوایا کہ اس نے جس قیمت پر وہ بکری خریدی ہے اسی قیمت پر اس بکری کو میرے ہاتھ فروخت کردے، لیکن وہ ہمسایہ بھی اپنے گھر) نہ ملا۔ تب میں نے اس ہمسایہ کی بیوی کے پاس آدمی بھیجا اور اس نے وہ بکری میرے پاس بھیج دی۔ (یہ تفصیل سن کر) رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ کھانا قیدیوں کو کھلادو۔ اس روایت کو ابوداؤد نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔

تشریح
ملا علی قاری (رح) نے لکھا ہے کہ میت کے کھانے کے سلسلہ میں فقہاء کے جو اقوال ہیں بظاہر یہ حدیث ان کے خلاف ہے مثلا بزازیہ میں لکھا ہے کہ (میت کے ورثاء کی طرف سے پہلے دن (یعنی موت والے دن) یا تیسرے دن اور ساتویں دن کھانا کھلانا مکروہ ہے، اسی طرح خلاصہ میں مذکور ہے کہ تیسرے دن (تیجا کے نام پر) کھانے کا اہتمام کرنا اور لوگوں کو اس کھانے پر بلانا مباح نہیں ہے۔ زیلعی نے کہا کہ ہم تین دن تک (غم منانے کے لئے) بیٹھنے میں مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ ممنوع چیزوں کا ارتکاب نہ ہو، جیسے بچھونے بچھانا اور دعوت و ضیافت کا اہتمام کرنا۔ نیز ابن ہمام (رح) نے بھی لکھا ہے کہ اہل میت کی ضیافت کرنا مکروہ ہے۔ ان فقہا نے علت یہ بیان کی ہے کہ ضیافت خوشی میں مشروع ہے نہ کہ غمی میں اور ابن ہمام (رح) نے یہ بھی کہا ہے کہ اہل میت کا ضیافت (جو غمی میں دی جائے) بدعت سیہ ہے نیز امام احمد اور ابن ماجہ صحیح اسناد کے ساتھ حضرت جریر ابن عبداللہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ( تدفین کے بعد) میت کے گھر میں لوگوں کے جمع ہونے اور اہل میت کی طرف سے کھانا دیئے جانے کو ہم نوحہ میں شمار کرتے تھے (جس کی سخت ممانعت منقول ہے) پس عاصم ابن کلیب کی روایت کردہ مذکورہ حدیث چونکہ فقہاء کے ان اقوال کے خلاف جاتی ہے اس لئے (اس حدیث اور فقہی روایتوں کے درمیان تطبیق کی خاطر) ضروری ہے کہ فقہا کے اقوال کو یا تو خاص نوعیت کے ساتھ مقید کیا جائے مثلا یہ کہا جائے کہ فقہی روایتوں کے مطابق میت کے گھر لوگوں کو اکٹھا ہونے کی جو ممانعت ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ لوگ محض رسمی طور پر یا ظاہری داری کے لئے میت کے گھر اکٹھا ہوں اور اہل میت کو شرما شرمی ان کے کھانے کا انتظام کرنے پر مجبور ہونا پڑے (جیسا کہ ہمارے ہاں دستور ہے کہ دور قریب کی عورتیں میت کے گھر جا کر ڈھی دیتی ہیں اور میت کے پسماندگان اگر استطاعت نہیں رکھتے تو قرض ادھار کر کے شرما شرمی ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں) یا ان فقہی روایتوں کو اس صورت میں محمول کیا جائے جس میں کھانے کا انتظام میت کے ترکہ میں سے ہو اور ورثاء میں سے صغیرالسن ہوں یا موجود نہ ہوں اور یا ان کی اجازت ورضا معلوم نہ ہو، یا یہ کہ کھانے کا انتظام کسی شخص نے اپنے ذاتی مال سے نہ کیا ہو بلکہ میت کے اس مال سے جو ورثاء کے درمیان تقسیم نہ ہوا ہو، ان کے علاوہ کچھ دوسری صورتیں بھی ہیں جن میں میت کا کھانا مختلف اسباب کی بنا پر مکررہ ہے (جیسے ہمارے یہاں بعض مقامات پر دستور ہے کہ بعض مقررہ تاریخوں پر یا ان سے آگے پیچھے کھانا پکا کر محض نام آوری کے لئے کھلوایا یا بانٹا جاتا ہے اور بعض لوگ تو قرض ادھار کر کے اس طرح کے اسراف کا مرتکب ہوتے ہیں) نیز قاضی خاں کا یہ قول بھی انہی صورتوں پر محمول ہے کہ غمی اور مصیبت کے دنوں میں ضیافت اور تقریب کا اہتمام کرنا مکروہ ہے کیونکہ وہ دن رنج والم کے اظہار کے ہیں اور جو چیز خوشی ومسرت کے موقع کی غماز ہوتی ہے (جیسے ضیافت اور تقریب کا اہتمام) اس کو غمی کے موقع پر اختیار کرنا نہایت موزوں ہے ہاں اگر (میت کے ثواب پہنچانے کی نیت سے) فقراء کو کھلانے کے لئے کھانے کا اہتمام کیا جائے تو یہ بیشک اچھا عمل ہوگا، جہاں تک اس صورت کا تعلق ہے اگر کوئی شخص یہ وصیت کر جائے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال میں سے کھانے کا اہتمام کرکے لوگوں کو تین دن تک کھلایا جائے تو زیادہ صحیح روایت کے مطابق یہ وصیت سرے سے باطل قرار پائے گی، گو بعض حضرات نے کہا ہے کہ وصیت تہائی مال میں جائز ہوگی اور یہی قول زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ یہاں تک جو کچھ نقل ہوا ہے وہ ملاعلی قاری (رح) کے کلام کا خلاصہ ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ انہوں نے فقہی روایتوں کو چند صورتوں پر محمول کرکے باقی اور تمام صورتوں میں اہل میت کی طرف سے کھانے کے اہتمام کو مطلق جائز قرار دے دیا ہے، بلکہ ان صورتوں میں غور کیا جائے، جن کو ممنوع اور مکروہ کہا گیا ہے، تو حقیقت واضح ہوگی کہ میت کے کھانے کی جو بھی صورتیں اور قسمیں ہمارے یہاں رائج ہیں کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت سے اور کسی نہ کسی سبب کی بناء پر ممنوع اور مکروہ صورتوں اور قسموں کے دائرہ حکم سے باہر نہیں جاتیں، کہیں ممانعت و کر اہت کا کوئی سبب پایا جاتا ہم اور کہیں متعدد اسباب پائے جاتے ہیں۔ رہی اس حدیث کی بات جس میں آنحضرت ﷺ کا میت کے کھانے کی دعوت قبول کرنے کا ذکر ہے تو اس کی حقیقت خود حدیث میں غور وفکر کے بعد واضح ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ حدیث میں کھانا کھلانے کی اس صورت کا ذکر ہے جس کے بارے میں قاضی خاں نے لکھا ہے کہ اگر (میت کو ثواب پہنچانے کی نیت سے) فقراء کو کھانا کھلایا جائے تو یہ اچھا عمل ہوگا۔ پس بظاہر یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ حدیث میں جس کھانے کا ذکر ہے وہ دراصل میت کی بیوی نے ایصال ثواب کی نیت سے فقراء اور مساکین کو بطور صدقہ کھلانے کے لئے تیار کیا تھا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں وہ کھانا بطور ہدیہ پیش کیا گیا، اسی بناء پر آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ کہ جو ضرورت مند اور مفلس تھے، میت کے گھر اس کھانے پر تشریف لے گئے علاوہ ازیں بعض فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ جو لوگ تجہز وتکفین اور تدفین میں شریک ہوں ان کے لئے اہل میت کی طرف سے پیش کئے جانے والے طعام کو کھانا درست ہے یہی نہیں بلکہ جو فقہاء طعام مصیبت (میت وغیرہ کے موقع پر تیار کئے گئے کھانے) کو مکروہ لکھتے ہیں انہوں نے بھی اس صورت کو مستثنیٰ رکھا ہے لہٰذا میت کے گھر کھانے پر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جانے کو اس صورت پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ وہ سب تجہزوتکفین اور تدفین میں شریک تھے اس لئے میت کے اہل بیت کی دعوت پر کھانا کھانے چلے گئے۔ اس بحث کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ اس حدیث اور فقہی روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ وہو موضع یباع فیہ الغنم۔ (وہ ایک جگہ کا نام ہے جہاں بکریوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے) یہ الفاظ اصل روایت کا جزء نہیں ہے بلکہ کسی راوی نے نقیع کی وضاحت کے لئے روایت میں شامل کئے ہیں واضح رہے کہ نقیع جس کا پہلا حرف نون ہے) مدینہ منورہ سے وادی عقیق کی جانب تقریبا بیس میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے، جہاں قدیم میں بکریوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی نقیع اس بقیع کے علاوہ ہے (جس کا پہلا حرف ب ہے اور جہاں مدینہ منورہ کا مشہور قبرستان ہے۔ اور اس نے وہ بکری میرے پاس بھیج دی) میت کی بیوی نے بکری حاصل کرنے کی جو تفصیل بیان کی ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ بکری درست طور پر خرید کر حاصل نہیں کی گئی تھی کیونکہ اس ہمسایہ کی رضامندی کہ جو بکری کا اصل مالک تھا، اس بکری کی فروختگی کے لئے صریحا حاصل نہیں تھی اس بکری کی خریدو فروخت کے مذکورہ معاملہ میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت کے قریب تھا جس کو فقہاء نے بیع فضولی سے تعبیر کیا ہے اور اس صورت میں بیع کا صحیح ہونا مالک کی اجازت کے حصول پر موقوف رہتا ہے بہرحال یہ بات طے تھی کہ اس بکری کا گوشت مشتبہ مال تھا اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس کے گوشت کو آپ ﷺ کے پیٹ میں جانے سے باز رکھا۔ یہ کھانا قیدیوں کو کھلادو۔ میں قیدیوں سے مراد جنگی قیدی ہیں اور جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ وہ مفلس تھے اور جیسا کہ طیبی (رح) نے لکھا ہے کہ وہ کافر بھی تھے۔ مطلب یہ کہ اس وقت چونکہ بکری کا اصل مالک موجود نہیں تھا جس کی اجازت اور رضا مندی حاصل کرکے بکری کی خریداری کو درست قرار دیا جاتا اور اس کے گوشت سے تیار شدہ طعام آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کھانا روا ہوتا اور اگر مالک کے آنے اور دستیاب ہونے کا انتظار کیا جاتا تو یہ طعام خراب ہوجانے کے سبب کسی کے بھی کھانے کے مصرف کا نہ رہ جاتا، ادھر ان قیدیوں کے کھانے کا بھی انتظام کرنا ہی تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے وہ پورا کھانا قیدیوں کو کھلانے کا حکم دے دیا، تاہم اس بکری کے تلف ہونے کی وجہ سے مالک کے لئے اس کی پوری قیمت ادا کرنا اس عورت کے لئے ضروری قرار پایا تھا جس کو کھلانے کا حکم دے دیا، تاہم اس بکری کے تلف ہونے کی وجہ سے مالک کے لئے اس کی قیمت ادا کرنا اس عورت کے لئے ضروری قرار پایا تھا جس کو اس نے ادا بھی کیا لہٰذا اس کھانے کا ان قیدیوں کو کھلانا اس عورت کی طرف سے صدقہ کے حکم میں ہوگیا۔
Top