مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5924
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : غفار غفر الله لها وأسلم سالمها الله وعصية عصت الله ورسوله . متفق عليه
چند عرب قبائل کا ذکر
اور حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا (قبیلہ) غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے (قبیلہ) اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور (قبیلہ) عصیہ (تو وہ قبیلہ) جو اللہ اور اللہ کے رسول کی معصیت میں مبتلا ہوا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
غفار عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے، ممتاز صحابی حضرت ابورذر غفاری ؓ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ قبیلہ حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا اور اپنی اس برائی کے سبب عام قبائل میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اسی پر آنحضرت ﷺ نے اس قبیلہ کے حق میں دعا فرمائی کہ اس قبیلہ کے دامن پر جو پہلا داغ لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مٹائے اور قبیلہ والوں کو مغفرت و بخشش سے نوازے کیونکہ اب اسی قبیلہ کے لوگ خوشی خوشی اسلام میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی دعائیہ جملہ کے بجائے جملہ خبریہ ہے یعنی آپ ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعہ خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کی جاہلی زندگی کے واقعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب اہل قبیلہ کو ان کے ایمان واسلام کی بدولت مغفرت و بخشش سے نوازدیا ہے۔ اسلم بھی ایک قبیلہ کا نام ہے اس قبیلہ کے لوگوں نے چونکہ لڑائی کے بغیر اسلام قبول کرلیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو سلامت رکھے اس قبیلہ کے بارے میں مذکورہ جملہ بھی جملہ خبریہ کا احتمال رکھتا ہے یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس جملہ کے ذریعہ یہ خبر دی ہو کہ یہ وہ قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو پسند نہیں کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کے لوگوں کو قتل و تباہی سے سلامت و محفوظ رکھا۔ عصیہ اس بدنصیب قبیلہ کا نام ہے جس نے مسلمان قاریوں کو بیر معونہ پر مکروفریب کے ذریعہ بڑی بےدردی کے ساتھ شہید کردیا تھا آنحضرت ﷺ کو اس پر بڑا رنج ہوا تھا اور آپ ﷺ قنوت میں اس قبیلہ کے لوگوں پر لعنت اور بددعا فرمایا کرتے تھے۔ اس قبیلہ کے حق میں مذکورہ حدیث کے الفاظ صرف جملہ خبریہ کے طور پر ہیں، ان میں جملہ دعائیہ کا کوئی احتمال نہیں ہے تاہم ان الفاظ میں اس قبیلہ کا ذکر جس طرح شکوہ کو ظاہر کرتا ہے وہ بجائے خود بددعا کو مستلزم ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں کہ اہل قبیلہ گناہ و معصیت میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوں بلکہ اس مفہوم میں کہ قبیلے والوں نے جس عظیم معصیت اور سرکشی کا ارتکاب کیا اس پر ان کو دنیا وآخرت میں ذلت و خواری نصیب ہو۔
Top