مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6041
وجہ تشبیہ
آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا تھا کہ تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ہارون (علیہ السلام) تھے ان الفاظ کے ذریعہ حضرت علی کو حضرت ہارون (علیہ السلام) سے تشبیہ دینا تو صاف سمجھ میں آتا ہے لیکن وجہ تشبیہ ظاہر نہیں ہوئی تھی کہ آپ ﷺ نے ان کو حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ کس اعتبار سے تشبیہ دی، اسی بات کی وضاحت کے لئے آپ ﷺ نے آگے فرمایا بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یعنی اگر تم دونوں میں کچھ فرق ہے تو بس یہ ہے کہ ہارون (علیہ السلام) ایک نبی تھے اور تم نبی نہیں ہو، پس معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی باہمی قرابت و وابستگی کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اور حضرت علی کے درمیان جس قرابت و وابستگی کو ظاہر کیا وہ نبوت کے اعتبار سے نہیں تھی بلکہ خلافت کے اعتبار سے تھی جو مرتبہ میں نبوت کے قریب ہے، لیکن خلافت کا اعتبار بھی دونوں صورتوں کو محتمل ہوسکتا تھا کہ یا تو آپ ﷺ کی مراد اپنی زندگی میں ایک خاص عرصہ کے لئے حضرت علی کو اپنا خلیفہ بنا کر ان کے تئیں اپنی قربت و وابستگی اور اعتماد کو ظاہر کرنا تھا یا اپنی وفات کے بعد ان کے استحقاق خلافت کی طرف اشارہ کرکے قربت و وابستگی اور اعتماد کو ظاہر کرنا تھا جہاں تک اس دوسری صورت کا تعلق ہے تو یہ یوں خارج ازامکان قرار پائی جاتی ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے وفات پاگئے تھے اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ کب بنے تھے کہ ان کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ آنحضرت ﷺ کے مذکورہ الفاظ سے جو مفہوم متعین طور پر ثابت ہوتا ہے وہ وہی ہے جو پہلی صورت میں بیان ہوا، یعنی یہ کہ آپ ﷺ نے اس موقعہ پر حضرت علی کو صرف اس عرصہ کے لئے خلیفہ بنانے کی بات کہی تھی جو غزوہ تبوک کے لئے آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر گزارا، خلاصہ کے طور پر یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت علی کی وہ خلافت جزوی تھی جو آنحضرت ﷺ کی زندگی ہی میں ایک خاص عرصہ کے لئے عارضی اور وقتی انتظام کے طور پر عمل میں آئی تھی اس صورت میں کہ وہ عرصہ ختم ہونے پر یعنی عزوہ تبوک سے آنحضرت ﷺ کی واپسی کے بعد وہ خلافت ختم ہوگئی تھی، وہ جزوی خلافت آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ان کی کلی خلافت کی دلیل کیسے بن سکتی ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) جب آسمان سے اترینگے تو نبی کے طور پر نہیں اتریں گے بلکہ دین محمد ﷺ کانفاذ کرنے والے اور اسلامی امراء و حکام میں سے ایک امیر وحاکم بن کر اتریں گے اور ان کا کام ہی یہ ہوگا کہ لوگوں کو شریعت محمدی ﷺ کا پابندومتبع بائیں، لیکن ملا علی قاری کا کہنا ہے کہ حدیث کے الفاظ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی کی حیثیت میں اتریں اور ہمارے نبی کی ﷺ کی شریعت کے متبع کے طور پر دین محمدی کے اجراء ونفاذ اور اسوہ رسالت محمدی کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیں اور اس میں بھی کوئی استبعاد نہیں کہ اس فریضہ کی ادائیگی میں ان کی راہنمائی وحی کے ذریعہ ہو، اس صورت میں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا کی مراد یہ بیان کی جائے گی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا اور آپ ﷺ خاتم النبیین اس اعتبار سے ہیں کہ نئے پیدا ہونے والے نبیوں کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہوگیا ہے، آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی اس دنیا میں نہیں آئے گا۔ اس حدیث میں حضرت علی کی جس بڑی فضیلت ومنقبت کی طرف اشارہ ہے فرمایا گیا کہ اگر آنحضرت ﷺ خاتم النبیین نہ ہوتے اور آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہ ہوگیا ہوتا تو حضرت علی بھی ایک نبی ہوتے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پھر یہ حدیث اس حدیث کے منافی ہوجائے گی جو صراحت کے حضرت عمر کے حق میں وارد ہوئی ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے درحقیقت ان دونوں حدیثوں کا مفہوم فرضی اور تقدیری ہے، یعنی آپ ﷺ نے ایک امر محال کو فرض کرکے گویا یوں فرمایا کہ اگر بالفرض میرے بعد اگر نبوت کا دروازہ کھلا رہتا تو میرے صحابہ میں سے متعدد لوگ نبی ہوتے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
Top