مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6048
وعن ابن عمر قال : آخى رسول الله صلى الله عليه و سلم بين أصحابه فجاء علي تدمع عيناه فقال : آخيت بين أصحابك ولم تؤاخ بيني وبين أحد . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أنت أخي في الدنيا والآخرة . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب
کمال قرب وتعلق کا اظہار
اور حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کرایا، تو حضرت علی اس حال میں (آنحضرت ﷺ کے پاس) آئے کہ آنکھوں سے آنسوجاری تھے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے اپنے اور صحابہ کے درمیان تو بھائی چارہ قائم فرما دیا لیکن کسی سے میرا بھائی چارہ قائم نہیں کیا؟ (یہ سن کر) رسول کریم ﷺ نے (ان سے) تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ دی وہ باشندگان مدینہ یعنی انصار اور مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کے درمیان برادرانہ بنیادوں پر مخلصانہ ومستحکم تعلق قائم کرانا تھا، چناچہ مدینہ پہنچنے کے پانچویں ہی ماہ آپ ﷺ نے ایک دن تمام انصار اور مہاجرین کو جمع کر کے اخوت اسلامی کا آفاقی فلسفہ پیش کیا اور انفرادی سطح پر عموماً ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔ حضرت علی ان چند صحابہ میں سے ایک تھے جن کا کسی کے ساتھ بھائی چارہ قائم نہیں ہوا تھا اس پر حضرت علی کو سخت ملال ہوا اور وہ سمجھے کہ شاید مجھے نظر انداز کردیا گیا ہے، لہٰذا وہ روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور شکوہ کیا کہ آپ ﷺ نے دوسرے صحابہ جیسے ابوبکر اور خارجہ ابن انصاری کے درمیان حضرت عمر فاروق اور حضرت عتبان بن مالک انصاری کے درمیان حضرت عثمان بن عفان اور حضرت ثابت بن منذر انصاری کے درمیان اور حضرت سلمان اور حضرت ابودرداء انصاری وغیرہ وغیرہ کے درمیان تو بھائی چارہ قائم کرکے ان کو ایک دوسرے کا دینی بھائی بنادیا ہے لیکن کسی انصاری صحابی کے ساتھ میرا بھائی چارہ قائم نہیں فرمایا اس پر آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارا بھائی موجود ہوں، دنیاوی رشتہ و قرابت کے اعتبار سے بھی، تو پھر تمہیں کیا ضروت ہے کہ کسی کے ساتھ تمہارا بھائی چارہ قائم کراؤں۔
Top