مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6051
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أنا دار الحكمة وعلي بابها . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب وقال : روى بعضهم هذا الحديث عن شريك ولم يذكروا فيه عن الصنابحي ولا نعرف هذا الحديث عن أحد من الثقات غير شريك
علی علم وحکمت کا دروازہ ہیں
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے میں حکمت و دانائی کا گھر ہوں اور علی اس گھر کا دروازہ ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک تابعی سے نقل کیا ہے لیکن ان کی اس حدیث کی اسناد میں صنابحی کا ذکر نہیں ہے (جیسا کہ ان کی اور روایتوں کے سلسلہ اسناد میں اس کا نام کا ذکر آتا ہے) نیز اس روایت کو ثقات میں شریک کے علاوہ اور کسی سے ہم نہیں جانتے۔

تشریح
ایک روایت میں یوں آیا ہے انا مدینۃ العلم وعلی بابہا (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہرکا دروازہ ہیں) ایک اور روایت میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں فمن اراد العلم فلیاتہ من بابہ (یعنی پس جو شخص حصول علم کا آرزومند ہو اس کو اس دروازہ کے ذریعہ آنا چاہئے۔ بہرحال علی دروازہ ہیں سے یہ مراد نہیں ہے کہ تنہا علی ہی دروازہ ہیں، بلکہ یہ معنی مراد ہیں کہ علی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں تاہم اس معنی میں بھی صرف حضرت علی کا ذکر ان کی فضیلت اور تکریم کا ظاہر کرتا ہے اور واقع میں حضرت علی ایسا رتبہ رکھتے بھی ہیں، اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ طبقہ صحابہ میں علم و حکمت کا جو خصوصی درجہ کمال سیدنا علی کو حاصل ہے وہ چند ہی صحابہ کو نصیب ہوا اور اس اعتبار سے سیدنا علی کو اگر اکثر صحابہ کی بہ نسبت سب سے زیادہ علمی فضیلت و بزرگی رکھنے والا کہا جائے تو غیر موزوں نہیں ہوگا۔ رہی یہ بات کہ اس روایت کے ظاہری معنی کے مطابق تنہا علی کو دروازہ کیوں قرار دیا جائے اور دوسرے صحابہ کو بمنزلہ اور دروازہ کیوں مانا جائے، تو اس سلسلہ میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے کہ آنحضرت ﷺ سے اکتساب فیض کرنے والے تمام ہی صحابہ امت کے لے مدار علم ہیں امت تک دین کا جو بھی علم پہنچا ہے وہ تمام صحابہ نے مشترک طور پر پہنچایا ہے، کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس امت کو علم نبوت تنہا اسی نے منتقل کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کے بعد علوم دین کا واحد مدار اسی کی ذات ہے۔ اس کی دلیل میں بہت سی حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں ان میں سے ایک حدیث تو آنحضرت ﷺ کا یہی ارشاد ہے کہ اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیم میرے تمام صحابہ آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤ گے علاوہ ازیں یہ بات تاریخی اور واقعاتی طور پر ثابت شدہ ہے کہ تابعین نے دین و شریعت کے جو مختلف علوم وفنون اخذکئے جیسے قرأۃ تجوید، تفسیر، حدیث اور فقہ وغیرہ، وہ سب انہوں نے تنہا حضرت علی ؓ سے اخذ نہیں کئے بلکہ تمام صحابہ سے اخذ کئے ہیں لہٰذا اس کے علاوہ چارہ نہیں کہ بابیت یعنی علم و حکمت کے شہر کے دروازہ ہونے) کو تنہا حضرت علی کے حق میں منحصر نہ رکھا جائے۔ ہاں اگر قضا (عدالت ومنصفی) کا علم وفن کے ساتھ مخصوص کرکے حضرت علی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ان کی ذات بےمثال تھی اور اس باب میں وہ تمام صحابہ پر فضیلت و برتری رکھتے تھے تو یقینا بجا ہوگا کیونکہ ان کے حق میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے انہ اقضاکم علی سب سے بڑے قاضی ہیں جیسا کہ حضرت ابی کے حق میں فرمایا انہ اقراء کم (ابی تم میں سب سے بڑے قاری ہیں) اور حضرت معاذ بن جبل کے حق میں فرمایا انہ اعلمکم بالحلال والحرام تم میں حلال و حرام کا علم سب سے زیادہ رکھنے والے ہیں۔ علامہ طیبی لکھتے ہیں شیعہ اس حدیث میں مذکورتمثیل سے تمسک کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے علم و حکمت پہنچنے کا واحد ذریعہ حضرت علی ہیں ان کے واسطہ کے بغیر کسی کو اس (علم و حکمت) میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ گھر میں داخل ہونے کا اصل ذریعہ دروازہ ہی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے وا تو البیوت من ابوبہا اور چونکہ آنحضرت ﷺ نے خود کو علم و حکمت کا گھر بتایا ہے اور اس گھر کا دروازہ حضرت علی کو قرار دیا ہے، اس لئے حضرت علی وہ دروازہ ہیں جس کے ذریعہ علم و حکمت کے گھر میں رسائی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیعہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی ذرہ برابر دلیل اس حدیث میں نہیں ہے، بلاشبہ حضرت علی کو علم و حکمت کا گھر جنت کے گھر سے زیادہ وسیع وفراخ نہیں ہے؟ جب جنت کے آٹھ دروازے ہیں تو علم و حکمت کے گھر کے دروازے اس سے زیادہ کیوں نہیں ہوسکتے۔ آخر میں یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس حدیث کا اصل ناقل ابی الصلت عبد السلام بن صلاح ہر وی ہے جو اگرچہ شیعہ ہے لیکن محدیثن کے نزدیک راست گو ہے علاوہ ازیں اس حدیث کے بارے میں محدیثن کم اختلافی اقوال ہیں بعض محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے تو بعض نے حسن۔ اسی طرح بعض نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے تو بعض نے کہا ہے کہ منکر ہے یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور کچھ لوگوں نے اس کو موضوع قرار دینے کی بھی کو شس کی ہے تاہم حافظ ابوسعید نے وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث کی باعتبارطرق کے حسن ہے نہ صحیح ہے نہ ضعیف اور نہ موضوع، نیز محدیثن نے اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے انا مدنیۃ العلم و ابوبکر اساسہا وعمر حیطانہا و عثمان سقفہا وعلی بابہا یعنی علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس شہر کی بنیاد ہیں، عمر اس شہر کی فصیل ہیں عثمان اس شہر کی چھت ہیں اور علی اس شہرکا دروازہ ہیں۔
Top