مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6058
وعن البراء بن عازب وزيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم لما نزل بغدير خم أخذ بيد علي فقال : ألستم تعلمون أني أولى بالمؤمنين من أنفسهم ؟ قالوا : بلى قال : ألستم تعلمون أني أولى بكل مؤمن من نفسه ؟ قالوا : بلى قال : اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه . فلقيه عمر بعد ذلك فقال له : هنيئا يا ابن أبي طالب أصبحت وأمسيت مولى كل مؤمن ومؤمنة . رواه أحمد
غدیر خم کا واقعہ
حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جب غدیر خم میں پڑاؤ کیا تو آپ ﷺ نے (صحابہ کو جمع کیا اور جیسا کہ ایک روایت میں ہے، اونٹوں کے پلانوں کا منبر بنا کر اس پر کھڑے ہوئے اور پھر) حضرت علی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ( اے میرے اصحاب! ) یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک میں ان کی جانوں سے زیادہ عزیز ہوں؟ سب نے عرض کیا جی ہاں، اس کے بعد آپ ﷺ نے یوں فرمایا تم تو جانتے ہی ہو کہ میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ عزیز و محبوب ہوں! صحابہ نے عرض کیا جی ہاں تب آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ! جس شخص کا میں دوست ہوں علی اس کا دوست ہے۔ الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور تو اس شخص کو اپنا دشمن قرار دے جو علی سے دشمنی رکھے اس واقعہ کے بعد حضرت عمر جب حضرت علی ؓ سے ملے تو ان سے بولے ابن ابی طالب مبارک ہو تم تو صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی (یعنی ہر آن وہرلمحہ) ہر مسلمان مرد و عورت کے دوست و محبوب ہو۔ (احمد )

تشریح
غدیرخم ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے مابین حجفہ کے قریب واقع ہے، مکہ سے حجفہ کا فاصلہ تقریبا ٥٠، ٦٠ میل ہے اور حجفہ سے غدیرخم تین چار میل کے فاصلے پر ہے۔ ١٠ ھ میں رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے سفر واپسی میں یہاں قیام فرمایا تھا اور اس وقت صحابہ کی بہت بڑی تعداد آپ ﷺ کے ہمراہ تھی جن کو آپ ﷺ نے جمع کرکے حضرت علی کے حق میں مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اہل ایمان کے نزدیک۔۔۔۔ ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ نے صحابہ کو قرآن کریم کی اس آیت (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) 33۔ الاحزاب 6) (نبی اہل ایمان کے نزدیک خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہیں) کی طرف متوجہ کیا، نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے تھے۔ میں ایک ایک مؤمن کے نزدیک۔۔۔۔۔ پہلے آپ ﷺ نے علی العموم اہل ایمان کا لفظ ارشاد فرمایا تھا، پھر اسی بات کو دوہرانے کے لئے اور زیادہ وضاحت کی خاطر ایک ایک مؤمن کا لفظ استعمال فرمایا۔ بہرحال ان الفاظ کے ذریعہ آپ ﷺ نے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ ایک ایک مؤمن جو مجھ کو اپنی جان سے بھی زیادہ رکھتا ہے تو اس کی ایک خاص یہ ہے کہ میں اہل ایمان کی انہی باتوں کا حکم دیتا ہوں جوان کی دینی یا دنیاوی بھلائی و بہتری اور فلاح ونجات کی ضامن ہیں جب کہ ان کا اپنا نفس، بتقضائے بشریت ان کو برائی اور بگاڑ کی طرف بھی لے جانا چاہتا ہے اور یہ انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ وہ جس ذات کو ہر آن اپنا خیرخواہ پاتا ہو اس کو ذات سے زیادہ عزیز و محبوب رکھے جوہر آن یا کبھی کبھار ہی سہی بدخواہی پر آمادہ پائی جاتی ہو۔ الہٰی تو اس شخص کو دوست رکھ۔۔۔۔۔ ایک روایت میں یہاں آپ ﷺ کے الفاظ یوں منقول ہیں الہم احب من حبہ وابغض من ابغضہ وانصر من انصرہ واخذل من خذلہ وادر الحق معہ حیث دار۔ الہٰی تو اس شخص کو محبوب رکھ جو علی کو محبوب رکھے اور اس شخص سے بغض رکھ جو علی سے بغض رکھے اور اس شخص کی مدد کر جو علی کا مددگار ہو اس شخص کی مدد نہ کر جو علی کی مدد نہ کرے اور حق کو علی کے ساتھ رکھ کہ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے۔
Top