مشکوٰۃ المصابیح - حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6070
وعن علي قال : كانت لي منزلة من رسول الله صلى الله عليه و سلم لم تكن لأحد من الخلائق آتيه بأعلى سحر فأقول : السلام عليك يا نبي الله فإن تنحنح انصرفت إلى أهلي وإلا دخلت عليه . رواه النسائي
قربت اور بے تکلفی کا خصوصی مقام
اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ کی نظر میں مجھ کو ایک ایسی قدر ومنزلت حاصل تھی جو خلقت میں کسی کو حاصل نہیں ہوئی، میں آپ ﷺ کے ہاں علی الصبح (بالکل اندھیرے منہ) پہنچ جاتا تھا (پہلے دروازہ پر کھڑے ہو کر طلب اجازت کے لئے) کہتا السلام علیک یا نبی اللہ! اگر آنحضرت ﷺ (میرا سلام سن کر) کھنگار دیتے تو میں (یہ سمجھ کر کہ اس وقت آپ ﷺ کسی مشغولیت میں ہیں اور کوئی شرعی یا عرفی رکاوٹ ایسی ہے جس کے سبب مجھ کو اندر نہیں جانا چاہئے) اپنے گھر واپس چلا آتا اور اگر آپ ﷺ نہ کھنگارتے تو میں (بےتکلف) آنحضرت ﷺ کے پاس چلا جاتا د۔ (نسائی)

تشریح
علماء کے اس قول کے مطابق کہ کسی کے گھر میں داخلے کی اجازت چاہنے کے لئے جو سلام کیا جاتا ہے اس کے جواب میں سلام کرنا صاحب خانہ کے لئے ضروری ہے یہ وضاحت کی جائے گی کہ حضرت علی کا سلام سن کر آنحضرت ﷺ پہلے ان کے سلام پر جوابی سلام کرتے اور پھر کھنکارتے تھے اور جن علماء کے مطابق صاحب خانہ پر جوابی سلام ضروری نہیں ہے، ان کے نزدیک اس وضاحت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سیدنا علی نے اس روایت کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنی جس قربت اور بےتکلفی کا ذکر کیا ہے وہ یقینا انہی کا خصوصی مرتبہ تھا جو ان کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں تھا کیونکہ وہ حضرت فاطمہ کی نسبت سے اور آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی ہونے کی حیثیت سے آنحضرت ﷺ کے گھر میں بےتکلفا آمد ورفت اور غیر معمولی مخالطت ومجالست کا حق سب سے زیادہ رکھتے تھے،
Top