مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6134
وعن عبد المطلب بن ربيعة أن العباس دخل على رسول الله صلى الله عليه و سلم مغضبا وأنا عنده فقال : ما أغضبك ؟ قال : يا رسول الله ما لنا ولقريش إذا تلاقوا بينهم تلاقوا بوجوه مبشرة وإذا لقونا لقونا بغير ذلك ؟ فغضب رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى احمر وجهه ثم قال : والذي نفسي بيده لا يدخل قلب رجل الإيمان حتى يحبكم لله ولرسوله ثم قال : يا أيها الناس من آذى عمي فقد آذاني فإنما عم الرجل صنو أبيه رواه الترمذي . وفي المصابيح عن المطلب
جس نے میرے چچا کو ستا یا اس نے مجھ کو ستا یا
اور حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عباس ؓ غصہ میں بھرے ہوئے آئے (یعنی کسی نے کوئی ایسی حرکت کردی تھی یا کوئی اسی بات کہہ دی تھی جس سے حضرت عباس ؓ کو غصہ آ رہا ہے؟ حضرت عباس ؓ بولے اے اللہ کے رسول! ہمارے (یعنی بنی ہاشم) اور (باقی) قریش کے درمیان کیا (بیگانگی) ہے کہ جب وہ (قریش) آپس میں ملتے ہیں تو کشادہ روئی سے ملتے ہیں اور جب ہمارے ساتھ ملتے ہیں تو اس طرح نہیں ملتے رسول کریم ﷺ (نے حضرت عباس ؓ سے یہ بات سنی تو ان قریش کے اس برے رویہ پر) سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ غصہ کی شدت سے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا پھر) حضرت عباس ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوگا اگر وہ تم (اہل بیت) کو اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دوست نہیں رکھے گا۔ اور پھر فرمایا لوگو! جان لو) جس شخص نے خصوصا) میرے چچا کو ستایا اس نے (گویا) مجھ کو ستایا، کیونکہ کسی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے (ترمذی) اور مصابیح میں عبد المطلب بن ربیعہ کی جگہ) مطلب بن ربیعہ ہے (جبکہ صحیح عبد المطلب بن ربیعہ ہی ہے جو ترمذی نے نقل کیا ہے۔

تشریح
ایمان داخل نہیں ہوگا یا تو مطلق ایمان مراد ہے اس صورت میں ارشاد گرامی کو شدید ترین وعید پر محمول کیا جائے گا یا کامل ایمان مراد ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا مقصد سخت تاکید کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ دل و دماغ کو اہل بیت کی محبت و عقیدت سے معمور کئے بغیر ایمان کامل کی دولت نصیب نہیں ہوسکتی۔ قریش کی جو متعدد شاخیں تھیں ان میں سے بنو ہاشم (آنحضرت ﷺ کا خاندان) سب سے باعزت شاخ تھی ایسے اکثر مناصب جو سماجی عزت وجاہت عطا کرتے تھے۔ اسی شاخ کے افراد کے سپرد تھے۔ پھر سب سے بڑا شرف یعنی نبوت و رسالت کا منصب عظمی بھی اسی شاخ کا نصیب بنا۔ ان وجوہ سے قریش کی دوسری شاخیں بنو ہاشم سے ایک پرخاش رکھتی تھیں اور ان کو اپنا حریف قرار دیتی تھیں۔ چناچہ ابوجہل آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے یہی کہا کرتا تھا کہ مکہ اور قریش کی سرداری بنو ہاشم نے لے رکھی ہے حاجیوں کو زمزم پلانے کے اعزاز پر بنو ہاشم نے قبضہ کر رکھا ہے اگر بنو ہاشم میں نبوت و رسالت بھی آجائے تو پھر باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا۔
Top