مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6153
وعن أسامة بن زيد قال : لما ثقل رسول الله صلى الله عليه و سلم هبطت وهبط الناس المدينة فدخلت على رسول الله صلى الله عليه و سلم وقد أصمت فلم يتكلم فجعل رسول الله صلى الله عليه و سلم يضع علي يديه ويرفعهما فأعرف أنه يدعو لي . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
اسامہ کے تئیں شفقت ومحبت کا اظہار
اور حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ ان دنوں جب کہ رسول کریم ﷺ (مرض وفات میں) بہت زیادہ کمزور اور نحیف ہوچکے تھے، میں اور دوسرے لوگ مدینہ میں اترے، میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ ﷺ پر خاموشی طاری تھی (یعنی شدت مرض و ضعف کے سبب طاقت گویائی بھی باقی نہیں رہ گئی تھی) چناچہ (مجھ کو دیکھ کر) آپ ﷺ زبان سے کچھ نہیں بولے تاہم رسول کریم ﷺ نے یہ ضرور کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر مجھ پر رکھتے اور پھر اٹھاتے (نور ولایت اور ظہور فراست کے سبب) میں سمجھ گیا کہ آنحضرت ﷺ میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کی ماتحتی میں مہاجرین و انصار کا ایک لشکر تیار کیا تھا جو محاذ جنگ کو روانہ ہونے کے لئے مدینہ سے باہر پڑاؤ ڈالے ہوئے لیکن آنحضرت ﷺ کی مرض وفات کی خبر سن کر یہ لشکر مدینہ میں واپس آگیا تھا، اسی موقعہ کا ذکر حضرت اسامہ ؓ نے کہا ہے۔ مدینہ میں آنے کو حضرت اسامہ ؓ نے جو ہبوط سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی اوپر سے نیچے اترنے کے ہیں تو وہ اس مناسبت سے ہے کہ لشکر نے جس جگہ پڑاؤ ڈال رکھا تھا وہ نواح مدینہ کے بالائی حصہ میں واقع تھی جس کو جوف کہا جاتا تھا جیسا کہ میدان عرفات مکہ کے بالائی نواح میں واقع ہے اہل عرب کا یہ اسلوب ہے کہ وہ ایسے مواقع پر گفتگو و کلام میں بلندی و نشیب کی لفظی رعایت رکھتے، چناچہ اگر ان کو یہ کہنا ہو کہ ہم عرفات گئے (تو یوں کہیں گے ہبطنا الی مکۃ یعنی ہم مکہ سے عرفات کو چڑھے اسی طرح مدینہ سے جوف کو جانا صعود (چڑھنے) سے تعبیر کیا جاتا تھا اور جوف سے مدینہ میں آنے کو ہبوط سے تعبیر کرتے تھے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد حرام کے اندر سے باب السلام کی طرف جاتا ہے جو عرفات کی سمت میں ہے تو یوں کہتا ہے۔ صعدنا الی باب السلام۔ ملا علی قاری نے ہبطت وہبط الناس المدینۃ کا ترجمہ یہ بیان کیا ہے کہ میں اپنے مکان سے (جو نواح شہر کے بالائی حصہ میں تھا) مدینہ میں اترا اور دوسرے لوگ بھی اپنے مکانوں سے مدینہ میں اترے۔ میرے حق میں دعا فرما رہے ہیں یعنی آنحضرت ﷺ کے دل میں اسامہ ؓ کی جو محبت اور ان کی خدمت اطاعت کی جو قدر تھی اس کی بناء پر آپ ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ اس سے حضرت اسامہ ؓ کے تئیں آنحضرت ﷺ کے کمال کرم و عنایت اور شفقت و مہربانی کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسے سخت و نازک وقت میں بھی ان کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔
Top