مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6181
وعن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم دعا فاطمة عام الفتح فناجاها فبكت ثم حدثها فضحكت فلما توفي رسول الله صلى الله عليه و سلم سألتها عن بكائها وضحكها . قالت : أخبرني رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه يموت فبكيت ثم أخبرني أني سيدة نساء أهل الجنة إلا مريم بنت عمران فضحكت . رواه الترمذي
حضرت مریم (علیہ السلام) بنت عمران کا ذکر
اور حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے ساتھ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ ؓ کو اپنے قریب بلایا اور ان سے چپکے چپکے کچھ باتیں سن کر رونے لگیں پھر آنحضرت ﷺ نے دوبارہ ان سے اسی سرگوشی کے سے انداز میں باتیں کیں تو اب وہ ہنسنے لگیں اور پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا تو ایک روز میں نے ان کے اس دن کے رونے اور پھر ہنسنے کا سبب دریافت کیا انہوں نے بتایا کہ پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے بارے میں مجھ کو آگاہ کیا تھا جس کو سن کر میں رونے لگی تھیں پھر آپ نے جب مجھ کو بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے سوا جنت کی ساری عورتوں کی سردار ہوں تو ہنسنے لگی تھی، (ترمذی)

تشریح
اسی طرح کی روایت پیچھے گزر چکی ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ کا ذکر ہے کہ انہوں نے جب حضرت فاطمہ ؓ سے رونے اور ہنسنے کا ماجرا پوچھا تو انہوں نے بتانے سے انکار کردیا تھا لیکن حضور ﷺ کے بعد حضرت فاطمہ ؓ نے بتایا تھا اور یہاں بھی حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فاطمہ ؓ نے بتایا، تاہم اس حدیث میں حضرت ام سلمہ ؓ کا اس واقعہ کو فتح مکہ کے سال کا ذکر کرنا بڑا سہو ہے کیونکہ تحقیقی اور تاریخی طور پر اس قصہ کا وقوع فتح مکہ کے سال میں ثابت نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ یا تو آنحضرت ﷺ کے حجۃ الوداع کے زمانہ کا ہے یا مرض الموت کے دوران کا دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت فاطمہ ؓ کے یہ الفاظ کہ آپ نے مجھ کو جب یہ بتایا کہ میں مریم بنت عمران کے سوا جنت کی ساری عورتوں کی سردار ہوں تو ہنسنے لگی مذکورہ سابق روایت کے منافی نہیں ہیں جس میں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے یہ بھی کہا تھا کہ میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی۔ اس روایت کے تحت ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کو اس باب سے کیا مناسبت ہے اس میں چونکہ حضرت فاطمہ ؓ کی منقبت و فضیلت کا ذکر ہے، لہٰذا یہ حدیث مناقب اہل بیت کے باب میں نقل کی جانی چاہئے تھی نہ کہ اس باب میں جو ازواج مطہرات کے مناقب کے ساتھ مخصوص ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آتی بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ روایت ضمنا اس روایت سے متعلق ہے جو اس فصل دوم کی پہلی روایت ہے اور جس میں حضرت خدیجہ اور حضرت مریم کے ساتھ حضرت فاطمہ ؓ کا بھی ذکر ہے اس کو یوں کہہ لیجئے کہ اس فصل کے شروع میں جو روایت نقل کی گئی اس کے بعض حصہ کے بارے میں چونکہ کچھ مزید باتیں اس حدیث سے معلوم ہوتی تھیں اس لئے اس کو یہاں نقل کردیا گیا اگرچہ حدیث اصلا اس سے تعلق نہیں رکھتی اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس حدیث کو اس باب میں نقل کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہو جو حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے نقل ہوئی ہے کہ وہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی بیوی ہوں گی۔
Top