مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6185
عن عبد الله بن عمر قال : رأيت في المنام كأن في يدي سراقة من حرير لا أهوي بها إلى مكان في الجنة إلا طارت بي إليه فقصصتها على حفصة فقصتها حفصة على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إن أخاك رجل صالح - أو إن عبد الله رجل صالح - . متفق عليه
عبداللہ بن عمر کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں میں نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے اور میں ریشمی ٹکڑے کے ذریعہ جنت کے جس محل کی طرف بھی جانا چاہتا ہوں وہ ٹکڑا مجھ کو اڑا کر وہاں تک پہنچا دیتا ہے یعنی مجھ کو ایسا لگا جیسے وہ ٹکڑا میرے لئے پنکھ بن گیا ہے اور میں جنت کے جس بلند درجہ و محل تک جانا چاہتا ہوں اس پنکھ کے ذریعہ اڑ کر پہنچ جاتا ہوں پھر میں نے یہ خواب اپنی بہن ام المؤمنین حفصہ ؓ سے بیان کیا اور انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تمہارا بھائی مرد صالح ہے یا یہ الفاظ فرمائے حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ مرد صالح ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
گویا آپ ﷺ نے یہ تعبیر دی کہ وہ ریشمی ٹکڑا دراصل عبداللہ کے نیک اعمال اور اس کی پاکیزہ زندگی کے اوراق ہیں جو ان کو جنت کے بلند مراتب و مدارج تک پہنچائیں گے عبداللہ بن عمر ؓ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کے بیٹے ہیں جس سال آنحضرت ﷺ نبوت سے سرفراز ہوئے اس سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی، چھوٹی ہی عمر میں انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت عمر ؓ کے ساتھ مکہ میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ غزوہ خندق کے بعد کے تمام عزوؤں میں شریک رہے ہیں علم و دانائی زہد ورع اور تقویٰ میں کامل جانے جاتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرمایا کرتے تھے۔ مامنا احد الا مالت بہ الدنیا ومال الیہا ما خلا عمر و ابنہ عبداللہ حضرت نافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے مرتے دم تک جن انسانوں غلاموں کو آزاد کیا ان کی تعداد ایک ہزار بلکہ اس سے بھی متجاوز ہے۔ ابتاع نبوی اور حب رسول میں ابن عمر ؓ کا امتیازی مقام ہے۔ وہ جب بھی حج کو جاتے تو ان مقامات پر کہ جہاں آنحضرت ﷺ حج میں ٹھہرا کرتے تھے جیسے عرفات وغیرہ تمام حاجیوں سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن حجاج بن یوسف نے فجر یا عصر کی نماز میں تاخیر کی تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سے کہا کہ نماز پڑھ لو، ورنہ سورج تمہارا انتظار نہیں کرے گا حجاج کو ان کا یہ کہنا بہت ناگوار گزرا، چناچہ وہ بولا جی چاہتا ہے کہ تمہاری آنکھیں پھوڑ دوں یا یوں کہا کہ جی چاہتا ہے کہ تمہارا سر قلم کر دوں حضرت عبداللہ ؓ نے یہ سن کر فرمایا اگر تم ایسا کر گزرو تو کیا بعید کیونکہ تم تو ایک نادان حاکم کی صورت میں ہم پر مسلط ہو۔ اور بعض حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بات آہستہ سے کہی تھی اور حجاج نے نہیں سنا تھا بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی اس حق گوئی و صاف بیانی کے سبب یا کسی اور وجہ سے حجاج ان سے سخت ناراض ہوگیا اور اس نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ابن عمر ؓ کا نیزہ قبضہ میں لے کر ان کو نہتا کردو اور پھر اس نے نہ صرف یہ کہ راستہ میں ان پر پتھراؤ کرایا بلکہ زہر میں بجھے ہوئے حربہ سے ان کے پاؤں کی پشت میں کاری زخم لگوایا۔ اسی کے سبب حضرت ابن عمر ؓ چند روز سخت بیمار رہ کر انتقال فرما گئے۔ یہ واقعہ حضرت ابن زبیر ؓ کے حادثہ شہادت کے تین ماہ بعد ٧٣ ھ میں پیش آیا۔ اس وقت حضرت ابن عمر ؓ ٨٤ سال کی تھے ان کا جسد خاکی ذی طوی میں سپرد خاک کیا گیا۔
Top