مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6189
وعن علقمة قال : قدمت الشام فصليت ركعتين ثم قلت : اللهم يسر لي جليسا صالحا فأتيت قوما فجلست إليهم فإذا شيخ قد جاء حتى جلس إلى جنبي قلت : من هذا ؟ قالوا : أبو الدرداء . قلت : إني دعوت الله أن ييسر لي جليسا صالحا فيسرك لي فقال : من أنت ؟ قلت : من أهل الكوفة . قال : أو ليس عندكم ابن أم عبد صاحب النعلين والوسادة والمطهرة وفيكم الذي أجاره الله من الشيطان على لسان نبيه ؟ يعني عمارا أو ليس فيكم صاحب السر الذي لا يعلمه غيره ؟ يعني حذيفة . رواه البخاري
ابن مسعود، عمار اور حذیفہ کی فضیلت
اور حضرت علقمہ (رح) (تابعی) بیان کرتے ہیں کہ جب میں ملک شام پہنچا اور دمشق کی جامع مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور پھر میں نے دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھ کو نیک ہمنشیں میسر فرما! پھر میں ایک جماعت میں جا کر بیٹھا ہی تھا کہ اچانک ایک بزرگ آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے۔ میں نے (لوگوں سے پوچھا) کہ یہ بزرگ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ مشہور صحابی حضرت ابودرداء ؓ ہیں میں یہ سن کر خوشی سے کھل اٹھا اور حضرت ابودرداء ؓ سے بولا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ مجھ کو نیک ہمنشین میسر فرما اور اللہ تعالیٰ نے آپ جیسا نیک ہمنشین مجھ کو میسر فرمادیا یہ سن کر حضرت ابودرداء ؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اور وہیں سے آیا ہوں حضرت ابودرداء ؓ بولے کیا تمہارے یہاں (کوفہ میں) ابن ام عبد یعنی عبداللہ ابن مسعود ؓ نہیں ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کی جوتیاں تکیہ اور چھاگل رکھنے کا شرف حاصل تھا کیا تمہارے یہاں وہ صاحب نہیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی لسان مبارک کے ذریعہ شیطان سے پناہ وامان عطا کی ہے، یعنی عمار اور کیا تمہارے یہاں وہ صاحب نہیں ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کے اس راز کا محرم ہونے کا شرف حاصل ہے جس کو ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا ہے یعنی حذیفہ۔ (بخاری)

تشریح
نیک ہمنشیں میں نیک سے مراد یا تو عالم با عمل ہے یا وہ شخص کہ جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بھی آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی دعا کا جواب کہ انہوں نے نیک ہمنشیں کی مخلصانہ درخواست کی اور حق تعالیٰ نے صحابی رسول جیسی جلیل القدر ہستی ان کے پاس بھیج دی یہاں وہ روایت مد نظر رہنی چاہئے کہ جس میں فرمایا گیا ہے۔ ان اللہ ملائکۃ تجر الا ہل الی الاہل۔ اور چھاگل رکھنے کا شرف حاصل تھا حضرت ابودرداء ؓ کی مراد حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کے ذاتی خادم ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ آپ ﷺ کی خدمت میں موجود رہتے تھے سفر وحضر میں آپ ﷺ کی ساتھ ساتھ رہتے، جب آنحضرت ﷺ سونے کا ارادہ فرماتے تو وہ آپ کا بستر ٹھیک کرتے اور آپ ﷺ کا تکیہ لا کر رکھتے جب آپ ﷺ وضو کے لئے اٹھتے تو وہ وضو کا پانی تیار رکھتے اور سفر وغیرہ میں آپ کے پانی کی چھاگل اپنے ساتھ رکھتے اور ضرورت کے وقت آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیتے۔ پس حضرت ابودرداء ؓ نے حضرت علقمہ ؓ کو گویا توجہ دلائی کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کو آنحضرت ﷺ کی صحبت و خدمت میں جس زبر دست قربت و وابستگی اور لزوم وتسلسل کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ہے اس نے ان کو دین و شریعت کے علم میں یقینا اتنا لائق وفائق اور اتنا کامل بنادیا ہے کہ کوئی طالب علم ان کو چھوڑ کر کسی دوسرے صاحب علم کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرسکتا۔ اس سے ایک تو اس بات کی تائید ہوتی ہے جو علماء نے طلب علم اور طالبان علم کے آداب میں بیان کی ہے کہ طالب علم کو پہلے اپنے شہر اور اپنے علاقہ کے علماء سے علم حاصل کرنا اور ان سے خوب استفادہ کرنا چاہئے اگر مزید علم حاصل کرنے کا ارادہ ہو تب دوسرے شہروں کو جائے اور سفر ومسافرت کے تعب و پریشانی میں مبتلا ہو۔ دوسرے یہ بات معلوم ہوئی کہ عالم کو چاہئے کہ اگر دوسرے عالم کو اپنے سے افضل جانتا ہے تو طالب علم کو اس کا حوالہ دیدے۔ یعنی عمار حضرت عمار ؓ کو آنحضرت ﷺ نے طیب اور مطیب (پاک اور پاکیزہ) سے تعبیر فرمایا تھا، ان کو جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی اور جب دشمنان دین ان کو سخت اذیتیں پہنچایا کرتے تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ ان کو آگ میں ڈال دیا گیا تو اس وقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا، اے آگ! عمار کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بن جا جیسا کہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بن گئی تھی، نیز ایک موقع پر آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا تھا! تم کو باغیوں کا گروہ قتل کرے گا۔ تم ان کو جنت کی طرف بلاؤ گے اور وہ تم کو آگ کی طرف لے جانا چاہیں گے، پس حضرت عمار ؓ کے حق میں آنحضرت ﷺ کے ان ارشادات اور بشارتوں کا مطلب یہ تھا کہ وہ راہ حق پر ثابت قدم رہیں اور شیطانی وسوسے ان کو بھٹکائیں نہیں۔ اور اسی کو حضرت ابودرداء نے اس بات سے تعبیر کیا کہ اللہ تعالیٰ عمار کو اپنے پیغمبر کی لسان مبارک کے ذریعہ شیطان سے پناہ وامان عطا کی ہے۔ حضرت عمار ؓ کے والد کا نام یاسر اور والدہ کا نام سمیہ ہے، یاسر کا وطن یمن تھا لیکن مکہ میں آکر رہ پڑے تھے اور یہاں انہوں نے ابوحذیفہ بن مغیرہ سے، جو بنو مخزوم میں سے تھے، حلف کی دوستی کرلی تھی اور انہی کی لونڈی سمیہ سے نکاح کرلیا تھا حضرت عمار انہی سمیہ سے پیدا ہوئے ان کے پیدا ہونے کے بعد ابوحذیفہ نے ان کو آزاد کردیا تھا۔ اور اسی اعتبار سے حضرت عمار بنو مخزوم کے آزاد کردہ غلام کہے جاتے ہیں۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی، ابتدائے اسلام میں کفار مکہ جن کمزور و لاچار مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بناتے تھے اور ان کو اسلام سے منحرف کرنے کے لئے نہایت سخت اور وحشیانہ اذیتیں پہنچاتے تھے اور ان میں حضرت عمار ؓ سر فہرست تھے۔ شقی القلب مشرک ان کو آگ کے عذاب میں مبتلا کیا کرتے تھے۔ اور آنحضرت ﷺ ان کے پاس پہنچتے تو ان کے سر اور جسم پر اپنا دست مبارک پھیرتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ یانار کونی بردا وسلم ا علی عمار کما کنت علی ابراہیم (اے آگ! عمار پر ٹھنڈی ہو جیسا کہ تو ابراہیم خلیل اللہ پر ٹھنڈی ہوگئی تھی) حضرت عمار اولین مہاجرین میں ہیں، غزوہ بدر اور دوسرے تمام جہادوں میں شریک ہوئے اور ٣٧ ھ میں جنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اس وقت ان کی عمر ٩٣ سال تھی۔ یعنی حذیفہ حضرت حذیفہ کو صاحب سر رسول اللہ ﷺ کہا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ان پر وہ مختلف راز اور بھید منکشف فرما رکھے تھے جن کا عام انکشاف دینی وملی مصالح کے تحت مناسب نہیں تھا ان بھیدوں میں ایک بھید تو یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو منافقین اسلام کے نام، ان کے نسب اور نفاق کی علامتیں بتادی تھیں، اس بناء پر ان کو پوری طرح معلوم تھا کہ کون شخص مخلص مسلمان نہیں ہے بلکہ منافق ہے، منقول ہے کہ ایک روز امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق نے پوچھا کہ اے حذیفہ کیا تم میرے اندر نفاق کی کوئی علامت دیکھتے ہو؟ حضرت حذیفہ نے جواب دیا نہیں، اللہ کی قسم آپ میں مجھ کو نفاق کی کوئی علامت نظر نہیں آتی، ہاں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کے دسترخوان پر رنگ برنگ کے کھانے موجود ہوتے ہیں لیکن جب اس کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ دسترخوان پر کچھ انڈے رکھے ہوتے تھے جو توڑے جانے کے بعد زرد وسفید رنگ کی صورت میں الگ الگ چیز معلوم ہوتے تھے۔ حضرت حذیفہ نے ٣٥ ھ میں بمقام مدائن اور وہیں مدفون ہوئے۔
Top