مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6192
وعن أبي موسى أن النبي صلى الله عليه و سلم قال له : يا أبا موسى لقد أعطيت مزمارا من مزامير آل داود . متفق عليه
ابو موسیٰ اشعری کی فضیلت
اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا اے ابوموسیٰ! تمہیں ایسی خوش آوازی عطا کی گئی ہے جو داؤد (علیہ السلام) کی خوش آوازی کا ایک حصہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مزمار اصل میں تو ساز یعنی بانسری، دف اور طنبور وغیرہ کے ساتھ گانے کو کہتے ہیں نہ کہ محض آواز کے ساتھ گانے کو۔ لیکن یہاں حدیث میں اس لفظ سے خوش آوازی وخوش الحانی مراد ہے۔ نیز آل داؤد سے مراد خود حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ذات ہے اور آل کا لفظ زائد ہے کیونکہ خوش آوازی وخوش الحانی کی صفت حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مشہور ہے نہ کہ آل داؤد کے ساتھ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں آل کا لفظ شخص واحد کے معنی میں ہے۔ اور وہ خود حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ذات ہے بہرحال مشہور پیغمبر حضرت داؤد (علیہ السلام) نہایت خوش آواز اور خوش الحان تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو بھی خوش آوازی اور خوش الحانی کی بڑی صفت عطا فرمائی تھی، جب وہ اپنی پرسوز اور خوش الحان آواز میں کلام اللہ کی تلاوت کرتے تو آنحضرت ﷺ بھی نہایت شوق سے ان کی تلاوت سنتے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ ان کا اصل نام عبداللہ بن قیس اشعری ہے، ابوموسیٰ کی کنیت سے مشہور ہیں، انہوں نے مکہ ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اور حبشہ کو ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے بعد میں حبشہ سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس وقت آئے جب آپ ﷺ خیبر میں تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ نے ٢٠ ھ میں ان کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان غنی ؓ کے شروع عہد خلافت تک بصرہ ہی میں مقیم رہے، پھر معزول ہو کر بصرہ کی سکونت ترک کی اور کوفہ آگئے۔ جب اہل کوفہ نے سعید بن عاص (حاکم کوفہ) کو وہاں سے نکال دیا اور حضرت عثمان ؓ سے درخواست کی کہ ابوموسیٰ کو ہمارا حاکم بنا دیجئے تو حضرت عثمان ؓ نے ان کو دوبارہ کوفہ کا حاکم بنادیا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو معزول کردیا اور پھر واقعہ تحکیم کے بعد حضرت ابوموسیٰ ؓ مکہ مکرمہ میں منتقل ہوگئے اور وہیں ٥٢ ھ میں فوت ہوئے۔
Top