مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6232
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم رأى في بيت الزبير مصباحا فقال : يا عائشة ماأرى أسماء إلا قد نفست ولا تسموه حتى أسميه فسماه عبد الله وحنكه بتمرة بيده . رواه الترمذي
عبداللہ بن زبیر
اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ (ایک رات کو خلاف معمول) نبی کریم ﷺ نے زبیر کے گھر میں چراغ جلتے دیکھا تو فرمایا کہ عائشہ! میرے خیال میں اسماء کے بچہ پیدا ہوا ہے (کیونکہ ان کے ہاں ولادت قریب تھی اور اس وقت خلاف معمول چراغ کا جلنا اس بات کی علامت ہے) تم لوگ اس بچہ کا نام نہ رکھنا جب تک کہ میں نام نہ رکھوں چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس بچہ کا نام عبداللہ رکھا اور کھجور کے ذریعہ اپنے دست مبارک سے اس بچہ کو تحنیک کیا۔ (ترمذی)

تشریح
تحنیک کے معنی ہیں کچاچبا کر بچہ کے منہ میں دینا، چناچہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر نومولود بچہ کے منہ میں دینا یا اس کے تالوں کو لگانا مستحب ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کے یہاں بچہ پیدا ہو تو اس کو چاہئے کہ کسی نیک و صالح شخص سے اس بچہ کا نام رکھوائے اور کھجور یا شہد اور یا کسی بھی میٹھی چیز کے ساٹھ اس کی تحنیک کرائے جس سے اس کو برکت حاصل ہو۔ حضرت زبیر بن العوام، آنحضرت ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ کے بیٹے اور حضرت ابوبکر صدیق کے داماد ہیں۔ حضرت عائشہ کی بہن حضرت اسماء ان کے نکاح میں تھیں۔ بڑی قدر منزلت رکھتے والے صحابی ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ، حضرت زبیر، وحضرت اسماء کے بیٹے ہیں، سرکار دوعالم ﷺ نے ان کی کینت ان کے نانا حضرت ابوبکر صدیق کی کنیت پر رکھی تھی اور ان کا نام بھی نانا ہی کے نام پر رکھا تھا، ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین کے یہاں جو لڑکے پیدا ہوئے ان میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ بن زبیر ہی ١ ھ میں پیدا ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق نے ان کے کان میں اذان دی، حضرت اسماء ان کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائیں اور آپ ﷺ کی بابرکت گود میں دیا، آنحضرت ﷺ نے کھجور منگائی اور اس کو اپنے منہ میں ڈال کر چبایا پھر اپنا مبارک لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا اور ان کو تحنیک کیا، اس طرح حضرت عبداللہ کے پیٹ میں جو چیز سب سے پہلے داخل ہوئی وہ آنحضرت ﷺ کا مبارک لعاب دہن تھا، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا کی فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نہایت پاکباز اور پاک نفس انسان تھے، روزے بہت رکھتے تھے اور نمازیں بھی بہت پڑھتے تھے۔ صلہ رحمی کا بہت خیال رکھتے تھے اور ناطے داروں سے حسن سلوک میں مشہور تھے۔ نہایت بہادر اور زبردست سپہ سالار تھے، میدان جنگ میں ان کی شجاعت اور شہ سواری تمام قریش میں ضرب المثل اور وجہ افتخار تھی حق گوئی ان کا طرہ امتیاز تھا، نہایت خوش تقریر اور جہر الصوت تھے، جب بولتے تھے تو آواز پہاڑوں سے جا کر ٹکرایا کرتی تھی، ایک بہت بڑی جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید بن معاویہ کی امارت وحکمرانی کو تسلیم نہیں کیا تھا اور امارت معاویہ کے مقرر کردہ حاکم مدینہ کے تسلط سے نکل کر مکہ مکرمہ آگئے تھے، یہاں مکہ کے شرفاء اور عمائدین کی اکثریت پہلے ہی سے یزید کے خلاف تھی، ان سب نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت کرکے مکہ پر ان کی حکومت قائم کرادی اور یزید اپنی سخت ترین کوششوں کے باوجود اپنی پوری مدت حکومت میں مکہ پر کبھی بھی اپنا تسلط قائم نہ کر پایا، یزید کی موت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر نے ٦٤ ھ میں باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کیا اور عام لوگوں سے بیعت لی، جس کے بعد بہت جلد شام کے بعض مقامات کے سوا تمام عالم اسلام نے ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا اور تقریبا نوسال تک حجاز عراق، یمن اور خراسان وغیرہ ممالک ان کی خلافت کے تحت رہے۔ جمادی الاول ٧٢ ھ میں دمشق (شام) کے اموی حکمران عبد الملک نے مشہور ظالم حجاج بن یوسف ثقفی کی کمانڈاری میں ایک زبردست لشکر حضرت عبداللہ بن زبیر کے خلاف مکہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کیا۔ اس لشکر نے پہلے طائف پر قبضہ کیا اور یہاں سے حضرت عبداللہ بن زبیر کے خلاف جنگی کاروائیاں جاری کیں، جن کا سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا پھر حجاج نے عبد الملک سے مزید کمک منگوائی اور زبردست جنگی تیاریوں کے ساتھ رمضان المبارک ٧٦ ھ میں بہت بڑا حملہ کرکے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا، یہ محاصرہ بھی کئی ماہ تک جاری رہا، جس کے دوران حجاج کی فوجیں شہر مکہ اور کعبۃ اللہ پر منجنیق سے سنگ باری کرکے تباہی پھیلاتی رہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر اپنی محدود فوجی طاقت کے ساتھ حجاج کا مقابلہ بڑی بہادری اور جانبازی سے کرتے رہے، ایک ایک کر کے ان کے تمام سپاہی کام آگئے، یہاں تک کہ دنیا کا عظیم الشان بہادر و متقی انسان تن تنہا داد شجاعت دیتا ہوا اس ظالم فوج کے ہاتھوں شہید ہوا۔ حجاج نے اس مردہ شیر کا سرتن سے جدا کر کے لاش کو ایک دار پر لٹکوایا اور پھر کافی دنوں بعد اس نے لاش کو دفن کرنے کی اجازت دی۔
Top