مشکوٰۃ المصابیح - اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں - حدیث نمبر 6258
عمر فاروق
حضرت عمر بن الخطاب ؓ عدی بن کعب کی اولاد سے ہیں اور قریشی ہیں ابوحفصہ کنیت ہے، پانچویں پشت پر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے زمانہ اسلام سے پہلے بھی حضرت عمر ؓ کا شمار نہایت اہم عمائدین قریش میں ہوتا تھا اور اس زمانہ میں اہل مکہ کی طرف سے سفارت ونمائیدگی کی ذمہ داری انہی کے سپرد تھی، یعنی جب بھی کسی موقع پر اہل مکہ اور قریش دوسرے قبائل کے سرداروں یا دوسری جگہ کے چودھریوں کے پاس اہم پیغام یا مشن بھیجتے تو اس کے لئے حضرت عمر ؓ ہی کا انتخاب کیا جاتا تھا حضرت عمر ؓ بہت گورے چٹے تھے، نہایت سفید وچمکدار آنکھیں سرخ اور قد اتنا بلند اور پر شکوہ تھا کہ جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ اونٹ پر سوار ہیں اور دوسرے لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ تورایت میں حضرت عمر ؓ کی تعریف ان الفاظ میں ہوئی ہے قرن حدید شدید امین یعنی وہ پہاڑ کی چوٹی بلند پر شکوہ ہے، تیز ہے، سخت ہے اور امانت دار ہے، اسلام میں حضرت عمر ؓ کا لقب فاروق ہے کیونکہ ان کی ذات حق و باطل اور کفر کے درمیان فرق کردینے والی معیار تھی، ان کی ہیبت اتنی زبر دست تھی کہ ان کی بڑی سے بڑی مخالفت طاقت بھی ان سے لرزاں رہتی تھی انہوں نے آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے آنحضرت ﷺ کے حکم پر راہ ہجرت اختیار کی تھی۔ منقول ہے کہ جب فاروق اعظم ؓ نے ہجرت کے ارادہ سے مکہ کو چھوڑنا چاہا تو تلوار گلے میں ڈالی، کمان کا چلہ چڑھایا اور تیر ہاتھ میں لئے ہوئے کعبہ میں آئے جہاں قریش کے تمام سردار اور کفار مکہ عمائدین پہلے سے موجود تھے، فاروق اعظم نے ان سب کے سامنے کعبہ اقدس کا طواف کیا دو رکعت نماز پڑھی اور پھر قریش و کفار مکہ کے سرداروں کی ایک ٹولی کے پاس الگ الگ آئے اور ان کو مخاطب کرکے بولے، تمہارے چہروں پر پھٹکار بر سے تم میں سے جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اس کی ماں زندگی بھر اس کو روتی رہے اس کا بیٹا یتیم ہوجائے اور اس کی بیوی اپنا سہاگ گنوا بیٹھے تو وہ میرے تعاقب میں نکلے اور اس وادی یعنی مکہ شہر سے باہر مجھ سے ملے لیکن ان میں سے کسی کو فاروق اعظم ؓ کے تعاقب کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت عمر فاروق ؓ اسلام کے دوسرے خلیفہ ارشد ہیں ان کی خلافت کی مدت ساڑھے دس سال ہے اور مشہور قول کے مطابق ان کی عمر تریسٹھ سال کی ہوئی، ؓ۔
Top