مشکوٰۃ المصابیح - اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں - حدیث نمبر 6271
زبیر بن عوام
حضرت زبیر بن عوام عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، چوتھی پشت قصی پر پہنچ کر ان کا اور آنحضرت ﷺ کا سلسلہ نسب ایک ہوجاتا ہے، ان کی والدہ ماجدہ حضرت صفیہ عبد المطلب کی بیٹی اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ایک صاحبزادی حضرت اسماء ان کی زوجیت میں تھیں، انہوں نے اور ان کی والدہ حضرت صفیہ نے ایک ساتھ حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر ١٦ سال اور ایک روایت کے مطابق ٢٥ سال تھی، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے چچا نے ان کو سخت اذیتیں پہنچائیں، یہاں تک کہ وہ ان کو دھوئیں میں بند کر کے ستایا تھا اور کہتا تھا کہ جب تک تم اسلام کو ترک نہیں کرو گے اسی طرح تم پر ظلم ڈھاتا رہونگا، مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں آئی اور ہر سختی ان کے قدم کو راہ اسلام پر اور زیادہ مضبوطی سے جماتی رہی، ان کی پہلی ہجرت حبشہ کو ہوئی تھی، انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر اور دوسرے غزوات میں شرکت کی غزوہ احد میں جب کہ دشمن نے چاروں طرف سے یلغار کر رکھی تھی اور اسلامی لشکر افراتفری کے عالم میں تھا، حضرت زبیر نہایت بہادری اور پامردی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے پاس ڈٹے رہے، منقول ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے اللہ کی راہ میں تلوار سونتی حضرت زبیر ابن عوام ہیں۔ حضرت زبیر کا رنگ گورا، چہرہ پر جمال و روشن تھا، دراز قد تھے جسم پر گوشت ہلکا تھا، بال بہت تھے اور رخسار ہلکے تھے، حضرت زبیر ٣٦ ھ میں جنگ جمل کے دوران شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر ٦٤ سال تھی پہلے جسد خاکی کو دار السباع میں دفن کیا گیا پھر بصرہ لایا گیا اور وہیں ان کو آخری آرام گاہ بنی منقول ہے کہ حضرت زبیر بن عوام ؓ نماز کی حالت میں تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر کے ایک شخص ابن جرموز نے ان پر حملہ کیا اور شہید کر ڈالا، بعد میں ابن جرموز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا اور بولا کہ آپ کو خوش خبری ہو میں نے زبیر کو قتل کر ڈالا ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ و جہہ نے جواب دیا اور تو بھی خوش خبری سن لے کہ دوزخ تیرا انتظار کر رہی ہے۔
Top