مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6302
عن عمر بن الخطاب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له : أويس لا يدع باليمن غير أم له قد كان به بياض فدعا الله فأذهبه إلا موضع الدينار أو الدرهم فمن لقيه منكم فليستغفر لكم وفي رواية قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : إن خير التابعين رجل يقال له : أويس وله والدة وكان به بياض فمروه فليستغفر لكم . رواه مسلم
حضرت اویس قرنی کی فضیلت
حضرت عمربن الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص یمن سے تمہارے پاس آئے گا جس کا نام اویس ہوگا، وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑے گا، اس کے بدن میں سفیدی (یعنی برص کی بیماری) تھی۔ اس نے اللہ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن سے سفیدی کو ختم کردیا ہاں صرف ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر سفیدی باقی رہ گئی ہے۔ پس تم میں سے جو شخص اس (اویس) سے ملے اس کو چاہئے کہ اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرائے، ایک اور روایت میں یوں ہے کہ (حضرت عمر نے بیان کیا کہ) میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، تابعین میں بہتر شخص وہ ہم جس کا نام اویس ہے اس کی ایک ماں ہوگی اور اس کے بدن پر برص کا نشان ہے، پس تم اس سے اپنے لئے دعا مغفرت کرانا۔ (مسلم)

تشریح
وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا ان الفاظ سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اہل و عیال میں سے صرف ایک ماں کے علاوہ اور کوئی یمن میں اس کا نہیں ہے اور اسی ماں کی خدمت وخبر گیری نے اس کو یمن سے چل کر یہاں میری زیارت و ملاقات کے لئے آنے سے باز رکھا ہے۔ اگر اس کو اپنی ماں کی تنہائی اور بےکسی کا فکر نہ ہوتا تو وہ ضرور میری خدمت میں حاضر ہوتا اور میری زیارت و صحبت کا شرف حاصل کرتا۔ ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک درہم کے بقدر فرمایا تھا یا ایک دینار کے بقدر کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے، بہرحال دعا کے نتیجہ میں برص کا ختم ہوجانا اور ایک درہم یا ایک دینار کے بقدر معمولی سا نشان باقی رہ جانا شاید قدرت کی اس مصلحت کے تحت ہوگا کہ اس مرض کی کچھ نہ کچھ علامت باقی رہے جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا بہشتی لباس سفیدی اور چمک میں ناخن کی طرح تھا جو کبھی میلا نہیں ہوتا تھا پھر دنیا میں آنے کے بعد ان میں بھی اور ان کی نسل میں بھی اسی لباس کا ذراسا نشان ناخن کی صورت میں باقی رہ گیا اور یا اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم پر برص کا وہ تھوڑا سانشان اس مصلحت سے باقی رہنے دیا کہ وہ شرم کے مارے لوگوں میں خلط ملط رکھنے سے با زرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اویس قرنی گوشہ نشینی اور گمنامی کو اختیار کئے ہوئے تھے، لوگوں کے درمیان خلط ملط رکھنے اور شہرت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ خود انہوں نے دعا کی تھی کہ پروردگار! میرے جسم پر اس مرض کا تھوڑا سا نشان باقی رکھئے تاکہ کر میں تیری نعمت کو یاد رکھوں اور اس کا شکر ادا کرتا رہوں کہ تو نے مجھے اس برے مرض سے نجات عطا فرمائی تابعین میں سے بہترین شخص حضرت اویس کو آنحضرت ﷺ نے بہترین تابعی اس اعتبار سے فرمایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے اور عذر شرعی نے ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے باز رکھا تھا ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں حضرت اویس کی مدح و تعریف ہے نیز اس ارشاد رسالت سے معلوم ہوا کہ اہل خیر وصلاح سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنی چاہئے اگرچہ درخواست کرنے والا ان اہل خیر وصلاح سے افضل ہو۔ اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ تعریفی الفاظ حضرت اویس قرنی کا دل خوش کرنے کے لئے ارشاد فرمائے تھے اور اس کا مقصد ان لوگوں کے واہمہ کا دفعیہ جو شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ اویس آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اور شرف زیارت و صحبت حاصل کرنے سے قصدا اعراض کررہا ہے۔ حالانکہ خدمت رسالت میں ان کے حاضر نہ ہونے کی وجہ ماں کی دل داری اور ماں کی خدمت وخبر گیری کا عذر شرعی تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تابعین میں سب سے بہتر حضرت اویس قرنی ہیں جب کہ حضرت امام احمد بن حنبل سے منقول ہم کہ تابعین میں سب سے بہتر اور افضل سعید بن مسیب ہیں، لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت سعید بن مسیب تو علوم دین اور احکام شرائع کی معرفت سب سے زیادہ رکھنے کے سبب تابعین میں افضل ہیں اور اللہ کے نزدیک ثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت اویس قرنی تابعین میں افضل ہیں اور قاموس میں جو یہ لکھا ہے کہ اویس قرنی سادات تابعین میں سے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی پر محمول ہیں۔ حضرت اویس قرنی کی شان میں جو اور آثار واخبار منقول ہیں اور جن کو سیوطی (رح) نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہم، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ سیوطی کہتے ہیں کہ اسیر بن جابر نے بیان کیا ہے، جب تک حضرت اویس، حضرت عمر فاروق کے پاس نہیں پہنچے تھے، وہ (عمر فاروق) یمن سے آنے والے ہر اسلامی لشکر اور قافلے سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی شخص اویس بن عامر ہے اور جب حضرت اویس دربار فاروقی میں پہنچے تو حضرت عمر نے ان سے پو چھا! کیا تم اویس بن عامر ہو؟ وہ بولے ہاں میں اویس بن عامر ہوں! پھر حضرت عمر نے پوچھا کیا تم قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہو اور قرنی ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہاں حضرت عمر نے پوچھا کیا تم کو برص کا مرض لاحق تھا اور پھر تم اچھے ہوگئے سوائے ایک درہم کے بقدر نشان کے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہاری ایک ماں ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! تب حضرت فاروق اعظم نے فرمایا! میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہارے پاس ایک شخص اویس بن عامر اہل یمن کے اسلامی لشکر اور قافلے کے ساتھ آئے گا جو قبیلہ مراد سے تعلق رکھتا ہوگا اور قرن کا ہوگا، اس کو برص کا مرض لاحق تھا جواب جاتا رہا ہے مگر ایک درہم کے بقدر نشان باقی رہ گیا ہے، اس کی ایک ماں ہے جن کی خدمت وخبر گیری میں مصروف ہے۔ (ان کی شان یہ ہے کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم سچی کرتا ہے، اگر تم سے ہوسکے اس سے درخواست کرنا۔ پس اے اویس میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے دعاء مغفرت کرو، (یہ سن کر) حضرت اویس بولے امیر المؤمنین! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں مجھ جیسا آدمی آپ کے لئے دعا مغفرت کرے؟ حضرت عمر نے فرمایا یقینا تمہیں میرے لئے دعا مغفرت کرنی ہے۔ تب حضرت اویس قرنی نے فاروق اعظم کے لئے دعاء مغفرت کی۔ پھر فاروق اعظم نے پوچھا کہ اویس! اب بتاؤ کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں کوفہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہارے بارے میں کوفہ کے حاکم کو کچھ لکھ دوں؟ حضرت اویس بولے بس مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیجئے، میں لوگوں سے دور اور درماندہ رہنا ہی اپنے لئے زیادہ اچھا سمجھتا ہوں اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دئیے۔ اگلے (کوفہ سے) ایک یمنی معزز شخص حج کے لئے آیا اور حضرت عمر کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضرت عمر نے اس سے حضرت اویس کے بارے میں پوچھا کہ کس حال میں ہیں؟ اس شخص نے بتایا کہ میں نے ان کو بہت پھٹے پرانے کپڑوں اور بےسروسانی کی حالت میں چھوڑا ہے، حضرت عمر نے اس کے سامنے آنحضرت ﷺ کی مذکورہ حدیث پڑھی۔ چناچہ وہ شخص جب واپس حضرت اویس کے پاس پہنچا تو ان سے دعائے مغفرت کی درخواست کی حضرت اویس نے اس سے کہا کہ تم بھی میرے لئے دعاء مغفرت کرو کیونکہ تم نیک سفر سے واپس آئے ہو، اس شخص نے پھر کہا کہ آپ میرے لئے دعا مغفرت کیجئے اور اس کے ساتھ اس نے حضرت عمر کی روایت کردہ حدیث ان کے سامنے پڑھی، تب حضرت اویس نے اس کے لئے دعائے مغفرت کی، اس کے بعد جب لوگوں کو حضرت اویس کا مقام معلوم ہوا اور ان کی حقیقت حال کا چرچا ہوا تو وہاں سے چلے گئے۔ ایک اور روایت میں یوں ہے اسیر بن جابر نے بیان کیا کہ کوفہ میں ایک محدث تھے جو ہمارے سامنے احادیث بیان کرتے تھے، جب وہ حدیثیں بیان کرکے فارغ ہوتے تو لوگ منتشر ہوجاتے تھے مگر چند آدمی اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے اور ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو بڑی عجیب و غریب باتیں کرتا تھا ویسی باتیں مجھ کو کسی زبان سے سننے کا موقع نہیں ملا تھا، چناچہ میں اس کے پاس بھی جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا، ایک دن میں نے اس شخص کو اس کی جگہ پر نہیں پایا تو اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص اس آدمی کو بھی جانتا ہے جو یہاں ہمارے پاس بیٹھا کرتا تھا اور بڑی عجیب و غریب باتیں کرتا تھا، ایک شخص بولا کہ ہاں میں اس آدمی کو جانتا ہوں، وہ اویس قرنی ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم ان کی قیام گاہ کو جانتے ہو! وہ بولا کہ ہاں جانتا ہوں چناچہ میں اس شخص کے ساتھ ہولیا اور اویس قرنی کے حجرہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر نکلے تو میں نے پوچھا کہ میرے بھائی! ہمارے درمیان موجود رہنے سے کس چیز نے تمہیں باز رکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا عریانیت نے، یعنی میرے پاس اتنے کپڑے نہیں ہیں جس سے اپنے جسم اور ستر کو پوری طرح چھپائے رکھوں اور اسی وجہ سے تم لوگوں کے درمیان آنے سے بچ رہا ہوں، یہ حقیقت ہے کہ ان کے ہمو طن اور ان کے اردگرد کے لوگ ان کی خستہ حالی کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کو ستانے سے بھی باز نہیں رہتے تھے۔ بہرحال میں نے اپنی چادر ان کو پیش کی اور کہا کہ لیجئے یہ چادر اوڑھ لیجئے، انہوں نے کہا کہ نہیں تم یہ چادر مجھ کو مت دو اور جب لوگ میرے جسم پر اس چادر کو دیکھیں گے تو میرا مذاق اڑائینگے اور مجھ کو ستائیں گے تاہم میں نے جب بہت زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے وہ چادر لے کر اوڑھ لی اور پھر اپنے حجرہ سے نکل کر لوگوں کے درمیان باہر آئے، لوگوں نے ان کو چادر میں دیکھا تو کہنا شروع کیا کہ میاں کس کو دھوکہ دے دیا، کس سے یہ چادر ہتھیا لی ہے۔ حضرت اویس نے یہ سن کر مجھ سے کہا کہ تم دیکھ رہے ہو، لوگ کیا کہہ رہے ہیں اسی خوف سے میں چادر نہیں لے رہا تھا، میں نے ان لوگوں کو ڈانٹا کہ آخر تم اس درویش سے کیا چاہتے ہو، کا ہے کو اس کو ستا رہے ہو یہ بھی ایک انسان ہے جو کبھی بےلباس رہنے پر مجبور ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو لباس میں نظر آنے لگتا ہے، غرضیکہ میں نے ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہٹا دیا، پھر ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ دنوں بعد کوفہ سے چند لوگ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے ان میں ایک وہ شخص بھی تھا جو حضرت اویس قرنی کا مذاق اڑایا کرتا تھا، حضرت عمر نے دوران گفتگو ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کا تعلق قرن سے ہو ان لوگوں نے اس شخص کو آگے کردیا جو حضرت اویس قرنی کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ حضرت عمر نے پہلے تو اس کے سامنے وہ حدیث پڑھی جو آنحضرت ﷺ نے حضرت اویس کی شان میں فرمائی تھی اور پھر اس شخص سے بولے کہ میں نے سنا ہے کہ وہ یمنی شخص (یعنی حضرت اویس قرنی) کوفہ میں تم لوگوں کے ہاں پہنچا ہوا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ہمارے تو ایسا شخص کوئی نہیں ہے اور نہ ہم کو کسی ایسے شخص کو پہچانتے ہیں، حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں ہوگا لیکن وہ شخص تمہارے ہی ہاں ہے اور پھر اس کی علامت بتلائی کہ وہ اس طرح خراب وخستہ حال ہے تب اس شخص نے کہا کہ ہاں ایک شخص ہمارے ہاں ہے، اس کا نام اویس ہے اور ہم اس کا مذاق بھی اڑایا کرتے ہیں حضرت عمر نے اس شخص سے فرمایا اب تو کوفہ جاؤ تو اس شخص سے ضرور ملنا (اور اپنی گستاخیوں وبے ادبیوں کی معافی چاہ کر اس سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا) اگرچہ مجھ کو شبہ ہے کہ اب تم اس کو نہیں پاؤگے یا نہیں، بہرحال وہ شخص کوفہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اپنے گھر والوں کے پاس بعد میں گیا، پہلے حضرت اویس قرنی کی خدمت میں پہنچا۔ حضرت اویس نے اس شخص کو دیکھا تو بولے میرے تئیں تمہارے رویہ میں یہ تبدیلی کیسی؟ اس شخص نے کہا میں نے آپ کی تعریف امیر المؤمنین سے سنی ہے آپ کے بارے میں انہوں نے مجھ کو سب کچھ بتادیا ہے للہ! آپ مجھے معاف فرمادیجئے، مذاق اڑانے گستاخی کرنے والے اور بےادبی کے ساتھ پیش آنے کی صورت میں میں نے آپ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے اس سے درگزر فرمائے اور میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے۔ حضرت اویس قرنی نے اس سے کہا کہ میں تمہارے لئے دعائے مغفرت کئے دیتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ تم نے میرے بارے میں امیر المؤمنین حضرت عمر سے جو کچھ سنا ہے اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرو گے، اس کے بعد انہوں نے دعائے مغفرت کی۔ اسیر ابن جابر جو اس کے راوی ہیں بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت اویس کا مقام کوفہ والوں کو معلوم ہوا۔ ایک اور روایت میں حضرت یحییٰ بن سعید المسیب سے اور حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے بیان کیا ایک دن رسول کریم ﷺ نے مجھ کو آواز دی کہ اے عمر! میں بولا، یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں، جو حکم ہو بجالانے کو تیار ہوں، حضرت عمر کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب مجھ کو آواز دی تو میں نے گمان کیا کہ آپ ﷺ کسی کام سے مجھ کو کہیں بھیجیں گے، لیکن پھر آپ ﷺ نے مجھ سے یوں فرمایا اے عمر! میری امت میں ایک شخص جس کو اویس کہا جائے گا، اس کے بدن کو ایک بلا یعنی برص کی بیماری لاحق ہوگی، وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی اس بیماری کو دور کردے گا مگر اس کا کچھ داغ اس کے پہلو پر باقی رہ جائے گا تم اس کو دیکھو گے تو تمہیں عزوجل یاد آجائے گا۔ جب تم اس سے ملنا تو اس کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے اپنے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا کیونکہ وہ اپنے پروردگار کے ہاں ایسا معزز اور ایسا بزرگ ہے کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم سچی کرے وہ اللہ تعالیٰ سے اتنے زیادہ لوگوں کی شفاعت کرے گا جتنے ربیعہ اور مضر جیسے کثیر القوم قبیلوں میں بھی افراد نہیں ہیں حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ یہ ارشاد رسالت سننے کے بعد میں نے اس شخص کی تلاش آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی کی مگر اس شخص کو نہیں پاسکا، پھر میں نے حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں بھی اس شخص کی ٹوہ میں رہا، مگر اس تک نہیں پہنچ سکا اور پھر جب میرا عہد امارت و خلافت آیا تو میں اور زیادہ تلاش و جستجو میں لگ گیا یہاں تک کہ مختلف شہروں اور علاقوں سے جو بھی قافلے آتے تو میں ہر ایک سے یہی سوال کرتا کہ کیا تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا نام اویس ہو، قبیلہ مراد سے تعلق رکھتا ہو اور قرن کا ہو، اسی تلاش و جستجو کے دوران قرن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ امیر المؤمنین آپ جس شخص کو پوچھتے ہیں وہ میرے چچا کا بیٹا ہے لیکن وہ تو نہایت خستہ حال کم رتبہ اور بےحیثیت شخص ہے، بھلا وہ اس درجہ کا کب ہے کہ آپ جیسی ہستی عظیم اس کا حال دریافت کرے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ مجھ کو ایسا لگ رہا ہے کہ تو اس آدمی کی شان میں ایسے حقارت آمیز الفاظ استعمال کرکے ان لوگوں میں سے ہے جو اس کے تئیں گستاخانہ رویہ اختیار کرنے کے سبب ہلاکت میں پڑنے والے ہیں۔ میں اس شخص سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک اونٹ آتا دکھائی دیا جس پر ایک بوسیدہ پالان بند ھا ہوا تھا اور اس پالان میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہوا تھا جس نے پھٹے پرانے کپڑوں سے اپنے جسم کا کچھ حصہ ڈھک رکھا تھا، اس کو دیکھتے ہی میرے دل میں آیا کہ یہی شخص اویس ہے، پھر میں اس کی طرف لپکا اور اس سے پوچھا بندہ خدا! کیا تم ہی اویس قرنی ہو؟ اس شخص نے جواب دیا ہاں! میں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں سلام کہا ہے تھا وہ شخص بولا علی رسول اللہ ﷺ السلام وعلیک یا امیر المؤمنین، اس کے بعد میں نے کہا آنحضرت ﷺ کا یہ حکم ہے کہ تم میرے لئے دعائے مغفرت کرو۔ اس کے بعد میرا معمول ہوگیا کہ ہر سال حج کے موقع پر اویس سے ملاقات کرتا اپنے احوال و اسرار ان سے بیان کرتا اور وہ اپنے حال و اسرار مجھ سے بیان کرتے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت حسن بصری نے بیان کیا جب حج کے دنوں میں قرن کے لوگ آئے تو امیر المؤمنین عمر نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں کوئی شخص اویس نامی ہے، ان میں سے ایک شخص بولا کہ امیر المؤمنین، بھلا اس شخص سے آپ کو کیا واسطہ؟ وہ تو ایک ایسا شخص ہے جو کھنڈرات میں پڑا رہتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے جانے سے اجتناب کرتا ہے، حضرت عمر نے فرمایا جب تو واپس جاؤ تو اس کو میرا سلام پہنچانا اور اس سے کہنا کہ مجھ سے ملاقات کرے، اس شخص نے واپس جا کر حضرت عمر کا پیغام پہنچادیا اور حضرت اویس امیر المؤمنین! حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر نے ان سے پوچھا اویس تم ہی ہو؟ وہ بولے ہاں اے امیرالمؤمنین! حضرت عمر نے پوچھا کیا تمہارے بدن پر سفیدی تھی اور تم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سفیدی کو تمہارے بدن سے دور کردیا تھا اور پھر تم نے یہ دعا کی تھی کہ اس سفیدی کا کچھ نشان باقی رہے؟ اویس بولے ہاں لیکن اے امیر المؤمنین یہ سب کچھ آپ کو کس نے بتایا؟ حضرت عمر نے کہا مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا تھا اور مجھ کو حکم دیا تھا کہ میں تم سے اپنے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کروں، چناچہ حضرت اویس نے حضرت عمر کے لئے مغفرت کی دعا کی اور پھر بولے کہ اے امیر المؤمنین! آپ سے بس اتنا چاہتا ہوں کہ آپ میری شخصیت اور میرے احوال کو پوشیدہ رکھیں اور مجھ کو یہاں سے واپس جانے کی اجازت عطا فرمائیں، چناچہ حضرت اویس نے ہمیشہ آپنے آپ کو چھپائے رکھا تاآنکہ جنگ نہاوند میں شہید ہوئے۔ ایک روایت میں سعید بن مسیب نے اس طرح بیان کیا کہ (ایک سال حج کے موقع پر) امیر المؤمنین حضرت عمر نے منیٰ میں منبر پر کھڑے ہوئے آواز دی اے اہل قرن! معمر قرنی لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ہم حاضر ہیں اے امیر المؤمنین! کیا حکم ہے امیر المؤمنین عمر نے پوچھا، کیا قرن میں کوئی ایسا شخص ہے جس کا نام اویس ہے؟ ان میں سے ایک معمر شخص نے جواب دیا، ہم لوگوں کے درمیان رہنے والا کوئی شخص اس نام کا نہیں ہے، ہاں ایک دیوانہ صفت کا نام اویس ضرور ہے جو جنگلوں میں رہتا ہے نہ کوئی اس کے ساتھ الفت وموانست رکھتا ہے اور نہ خود وہ کسی کے ساتھ صحبت و اختلاط کا روادار ہے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا بس وہی شخص میرا مطلوب ہے، جب تم قرن واپس جاؤ تو اس شخص کو تلاش کرکے میرا سلام اس کو پہنچا دینا اور کہنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو تمہارے تئیں خوشخبری دی ہے اور مجھ کو حکم دیا تھا کہ میں تم تک رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچاؤں، چناچہ جب وہ لوگ قرن پہنچے تو اویس کو تلاش کیا وہ ریگستانوں میں پڑے ہوئے پائے گئے، ان لوگوں نے ان کو حضرت عمر کا سلام اور ان کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچا دیا، حضرت اویس بولے، امیرالمؤمنین نے تو میرا چرچا کردیا اور میرا نام کو شہرت دے دی۔ اسلام علی رسول اللہ ﷺ وعلی آلہ اور یہ کہہ کر لق ودق جنگل میں جاگھ سے اور مدتوں کسی نے ان کا نام ونشان نہیں پایا یہاں تک کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں پھر نمودار ہوئے اور ان کی طرف سے لڑتے ہوئے جنگ صفین میں شہید ہوگئے۔ صعصہ بن معویہ ؓ کی روایت میں اس طرح ہے کہ انہوں نے بیان کیا اہل کوفہ کا کوئی بھی قافلہ جب حضرت عمر فاروق کے پاس آتا تو وہ اس سے پوچھتے کہ کیا لوگ اویس بن عامرقرنی کو جانتے ہو، اہل قافلہ جواب دیتے! ہم میں سے کوئی اس نام کے شخص کو نہیں جانتا اور حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت اویس کوفہ کی ایک مسجد میں پڑے رہتے تھے وہاں سے نہ باہر نکلتے تھے اور نہ کسی سے کچھ تعارف رکھتے تھے، ان کا ایک چچا زاد بھائی تھا جوان کو ستایا کرتا تھا۔ اتفاق کی بات کہ کوفہ کے ایک قافلہ میں وہ بھی شریک ہو کر ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے ہاں پہنچا تو حضرت عمر فاروق نے حسب معمول اہل قافلہ سے سوال کیا! کیا تم لوگ حضرت اویس بن عامر قرنی کو جانتے ہو؟ یہ سوال سن کر حضرت اویس کا وہی چچا زاد بھائی اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا کہ یا امیر المؤمنین! اویس اس درجہ کا آدمی نہیں ہے کہ آپ اس کے بارے میں پوچھیں اور اس کا تعارف حاصل کریں، وہ تو نہایت کمتر اور بےحیثیت انسان ہے اگرچہ وہ میرا چچازاد بھائی ہے حضرت عمر نے اس شخص کی زبان سے یہ تحقیری کلمات سنے تو فرمایا تجھ پر افسوس، تو نے اویس کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرکے اپنی ہلاکت مول لے لی ہے پھر حضرت عمر نے وہ حدیث پڑھی جو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے حضرت اویس کی شان میں سنی تھی، اس کے بعد حضرت عمر نے اس شخص سے فرمایا کہ جب تم واپس پہنچو تواویس کو میرا سلام کہنا، اس واقعہ کے بعد حضرت اویس کی شخصیت مشہور ہوگئی لیکن وہ عام نظروں سے پوشیدہ ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت حضرت ابن عباس ؓ سے بھی منقول ہے، انہوں نے بیان کیا کہ پہلے تو دس سال تک حضرت عمر فاروق نے اویس قرنی کے بارے میں کوئی تلاش و جستجو نہیں کی، پھر انہوں نے ایک سال حج کے دوران اہل یمن کو آواز دے کر کہا کہ تم میں جو لوگ قبیلہ مراد سے تعلق رکھتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں چناچہ قبیلہ مراد کے لوگ کھڑے ہوگئے اور باقی لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہے، حضرت عمر نے ان (قبیلہ مراد کے لوگوں) سے پوچھا! کیا تم میں کوئی شخص اویس نام کا ہے؟ یہ سن کر ایک شخص بولا کہ اے امیر المؤمنین! ہمیں نہیں معلوم آپ کس اویس کو پوچھ رہے ہیں، ہاں میرا ایک بھتیجا ہے جس کو لوگ اویس اویس کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ اس درجہ کا پست وبے حیثیت انسان ہے کہ آپ جیسی ہستی کو اس سے کیا سروکار ہوگا۔ حضرت عمر نے پوچھا کیا وہ حدود حرم میں موجود ہے؟ اس نے کہا ہاں، میدان عرفات سے متصل اراک جھاڑیوں میں لوگوں کے اونٹ چرارہا ہے (گویا حضرت اویس اپنی شخصیت چھپانے کے لئے لوگوں کے اونٹ چرا رہے تھے تاکہ ایک چرواہے سے زیادہ کوئی اہمیت ان کو نہ دی جائے) حضرت عمر نے یہ سنا تو حضرت علی کو اپنے ساتھ لیا اور دونوں ایک گدھے پر سوار ہو کر اراک کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اویس کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور اپنی نظریں سجدہ گاہ پر گاڑے ہوئے ہیں ان کو اس حالت میں دیکھ کر حضرت عمر اور حضرت علی نے آپس میں کہا کہ جس شخص کی تلاش میں ہم لوگ ہیں ہو نہ ہو یہ وہی شخص ہے، حضرت اویس کے کانوں میں جب ان دونوں کی آہٹ پڑی تو انہوں نے نماز کو مختصر کردیا اور فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوئے ان دونوں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے دونوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا علیکم السلام ورحمتہ اللہ۔ پھر حضرت عمر اور حضرت علی مرتضیٰ نے پوچھا برادرم! تمہارا نام کیا ہے اللہ کی رحمت و سلامتی نازل ہو تم پر! اویس بولے میں عبداللہ ہوں سیدنا علی المرتضیٰ نے کہا، ہمیں معلوم ہے، آسمانوں میں اور زمین پر جو بھی متنفس ہے، وہ عبداللہ ہے۔ میں تم کو پروردگار کعبہ اور پروردگار حرم کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، تمہارا وہ نام کیا ہے جو تمہاری ماں نے رکھا ہے۔ حضرت اویس نے کہا تم لوگ مجھ سے آخر چاہتے کیا ہو، میر انام اویس بن مراد ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی نے کہا ذرا اپنا بایاں پہلو کھول کر دکھاؤ، حضرت اویس نے اپنا بایاں پہلو کھول دیا، ان دونوں نے دیکھا کہ اس جگہ ایک درہم کے بقدر سفیدی کا نشان موجود ہے۔ دونوں تیزی کے ساتھ اویس کی طرف لپکے تاکہ اس نشان کو بوسہ دیں اور بولے کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم آپ ﷺ کا سلام تمہیں پہنچائیں اور یہ کہ تم سے اپنے لئے دعاء مغفرت کی درخواست کریں۔ حضرت اویس نے کہا میں تو مشرق ومغرب کے ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے دعا گو ہوں۔ ان دونوں نے فرمایا ہم خاص طور پر اپنے لئے دعائے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ چناچہ حضرت اویس نے بالخصوص ان دونوں کے لئے اور بالعموم تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کی، اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا میں اپنی جیب خاص سے یا (بیت المال کے) اپنے عطیہ سے تمہیں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں حضرت اویس بولے یہ پھٹے پرانے کپڑے میرے پاس ہیں میری دونوں پاپوشیں گانٹھ دی گئی ہیں، چار درہم بھی میرے پاس ہیں جب یہ اثاثہ ختم ہوجائے گا تو آپ کا عطیہ قبول کرلوں گا اور انسان کی بات تو یہ ہے کہ جو کوئی ہفتہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو مہینہ بھر تک کے لئے دراز ہوجاتی ہے اور جو کوئی مہینہ بھر کے لئے آرزو کرتا ہے اس کی آرزو سال سال بھر تک کے لئے دراز ہوجاتی ہے (یعنی انسان اگر قناعت کا دامن چھوڑ دے تو پھر اس کی آرزوئیں اور حرصیں بڑھتی چلی جاتی ہیں) اس کے بعد حضرت اویس نے اونٹوں کو ان کے مالکوں کے حوالے کیا اور خود وہاں سے ایسے روپوش ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دیکھے گئے۔
Top