مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6303
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : أتاكم أهل اليمن هم أرق أفئدة وألين قلوبا الإيمان يمان والحكمة يمانية والفخر والخيلاء في أصحاب الإبل والسكينة والوقار في أهل الغنم . متفق عليه
اہل یمن کی فضیلت
اور حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ (جب یمن سے ابوموسیٰ اشعری ؓ اور ان کی قوم کے لوگ خدمت رسالت پناہ میں حاضر ہوئے تو) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں جو (تمہارے پاس آنے والے اور لوگوں کی بہ نسبت) زیادہ رقیق القلب اور زیادہ نرم دل ہیں ایمان یمن کا ہے اور حکمت بھی یمنی ہے اور فخر (یعنی اپنے مال ومنصب وغیرہ کے ذریعہ اپنی بڑائی مارنا) اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے ہے، جب کہ اطمینان و تحمل اور وقار بکری والوں میں ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ارق افئدۃ میں ارقکالفظ رقۃ سے ہے جس کے معنی نرمی اور رحم و شفقت کے ہیں اور جو قساوت یعنی سنگ دلی وبے رحمی اور غلاظت یعنی سختی و کثافت کی ضد ہے۔ افئدۃ جمع ہے فؤ اد کی جس کے معنی دل کے ہیں بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ فؤ اد دل کے باطن کو کہتے ہیں جب کہ بعض حضرات کے نزدیک اس لفظ کا اطلاق ظاہر طور پر ہوتا ہے۔ بہرحال ارق افئدۃ کا مطلب یہ ہے کہ اہل یمن باطن کی حیثیت سے نرمی و شفقت اور رحم ومروت کا مادہ بہت زیادہ رکھتے ہیں اور الین قلوبا (نرم دل ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل یمن بحسب ظاہر کے نصیحت وموعظت کا اثر اور لوگوں کی بہ نسبت جلد قبول کرلیتے ہیں قبول حق کی استعداد اور لوگوں کی بہ نسبت ان کے دل میں زیادہ ہے۔ اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ افئدۃ جمع ہے فؤ اد کی جس کے معنی دل کے ہیں اور قلوب جمع قلب کی، جو تقلب سے ہے اور جس کے معنی ہیں، پلٹنا یعنی ایک حالت چھوڑ کر دوسری حالت کی طرف آنا، چونکہ اکثر اہل لغت نے فواد اور قلب کا ذکر ایک ہی معنی میں کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ حدیث میں ان دونوں کا ذکر تاکید کے لئے ہے۔ واضح ہو کر یہ حدیث باب وفاۃ النبی ﷺ کی تیسری فصل میں بھی نقل ہوئی ہے لیکن وہاں صرف ارق افئدۃ کے الفاظ ہیں لین قلوبا کے الفاظ نہیں ہیں اور اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ معنی کے اعتبار سے یہ دونوں جملے یکساں ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ فواد اصل میں دل کے پردہ کو کہتے ہیں جب یہ پردہ باریک ہوتا ہے تو حق بات اس میں داخل ہوتی ہے اور دل تک پہنچ جاتی ہے اور پھر جب دل نرم ہوتا ہے تو وہ حق بات اس کے اندر بھی داخل ہوجاتی ہے پس رقت غلظت کی ہے اور لین صلابت کی۔ اور یہ دونوں اسلامی دل کی ایک خاص کیفیت وحالت کا نام ہیں جب انسان کا دل اللہ کی اتاری ہوئی آیتوں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے پندونصائح سے متاثر نہیں ہوتا تو اس کو غلظت وصلابت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اور جب انسان کا دل ان سے متاثر ہوتا ہے اس کو رقت اور لین کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے یہاں علامہ طیبی (رح) کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حدیث میں رقت سے مراد جودت فہم ہو اور لین سے مراد حق بات کا قبول کرنا ہو، ایمان یمن کا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔ یہاں یمانیۃ کا لفظ بعض روایتوں میں ی کی تشدید کے ساتھ یمانیۃ بھی منقول ہے، بہرحال آنحضرت ﷺ نے ایمان و حکمت کو یمن کے ساتھ اس اعتبار سے منسوب فرمایا کہ اس وقت کے دوسرے اہل مشرق کے مقابلے میں یمن کے لوگ سب سے زیادہ کمال ایمان کے ساتھ متصف تھے اور جیسا کہ باب بدء الخلق کی روایت میں گذرا یہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ہی تھے، جنہوں نے قبول اسلام کے لئے بمعنی لوگوں کی سربراہی کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری کے موقع پر آنحضرت ﷺ سے آفرنیش عالم، ابتدائے کائنات اور اس سلسلے کے حکم و اسرار کے بارے میں سوال کرکے حکمت و دانائی سے یمنی لوگوں کی فطری وابستگی کا اظہار فرمایا اور یہ پھر حکمت و دانائی کا کمال انہی کا طفیل اور انہی کی وراثت تھی جس کا ظہور حضرت ابوالحسن اشعری کی ذات میں ہوا جو اہل سنت والجماعت آئمہ میں سے ہیں اور حضرت موسیٰ اشعری کی اولاد میں سے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہاں حکمت سے مراد رفقہ فی الدین ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ حکمت سے مراد منہ سے صرف ایسی نیک بات نکلنا ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید ہو اور ہلاکت و تباہی سے بچانے والی ہو۔ اور فخر اور تکبر کرنا اونٹ والوں میں سے۔۔۔۔۔ اس ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ حیوانات اور جانوروں کی مخالطت انسان کی طبیعت وسرشت پر اثر انداز ہوتی ہے جو انسان جس جانور کے ساتھ اپنا وقت زیادہ گزارتا ہے اس کے اندر وہ خصلت خود سرایت کر جاتی ہے جو اس جانور کی طبیعت وطینت کا خاصہ ہوتی ہے۔ مثلا کوئی شخص اونٹوں کے درمیان رہتا ہے اور اونٹ چرانے کا کام کرتا ہے تواونٹ کی سرشت میں قساوت وغلظت ہے اس لئے اس شخص کی خو اور اس کی عادات واطوار میں بھی قساوت اور غلظت آجاتی ہے، اسی طرح بکری ایسا جانور ہے جس کی طبیعت میں تحمل نرمی اور مسکینی ہوتی ہے، پس جو شخص بکریاں پالتا ہے، بکر یاں کے درمیان رہتا ہے اور بکریاں چراتا ہے تو اس کی خو اور اس کے عادات واطوار میں تحمل نرمی اور مسکین آجاتی ہے، اسی پر دوسرے جانوروں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے اور بعض حضرات نے یوں لکھا ہے کہ بکریاں پالنے والے اور بکریاں چرانے والے آبادی کے قریب رہتے ہیں اور بستی والوں سے خلط ملط رکھتے ہیں کیونکہ بکریاں پانی کے بغیرصبر نہیں کرسکتیں اور جاڑے وغیرہ کے سخت موسم کو برداشت کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوتی۔ اور اس بناء پر وہ آبادی سے دور ویرانوں اور بےآب وگیاہ میدانوں میں نہیں جاتیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کی سرشت میں نرمی اور مسکینی اور کمزوری شامل ہوتی ہے اور یہ بعض آبادیوں میں اور لوگوں کے درمیان رہنا ایسی چیز ہے جو طبیعت میں نرمی ومروت پیدا کرتی ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لے جاتی ہے اور اپنے حاکم کی سرکشی سے باز رکھتی ہے، اس کے برخلاف اونٹ ایک ایسا سخت طبیعت جانور ہوتا ہے جو آبادیوں اور بستیوں سے دور میدانوں اور صحراؤں میں زیادہ رہتا ہے اور اسی سبب سے اونٹ والوں کو بھی آبادی سے دور رہنا پڑتا ہے اور لوگوں سے ان کا ملنا جلنا کم ہی ہوتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جو طبیعت میں سختی ودرشتی، طغیانی و سرکشی اور حاکم کی اطاعت و فرمانبرداری سے انحراف کا مادہ پیدا کردیتی ہے، اس جملہ کی وضاحت میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اونٹ مالیت کے اعتبار سے بڑا اور قیمتی اثاثہ ہوتا ہے اس کے برخلاف بکری کم قیمت اثاثہ ہوتی ہے ظاہر جس شخص کے پاس اونٹ ہوں گے وہ اپنے کو زیادہ مالدار سمجھے گا اور یہ چیز اس میں غرور وتکبر پیدا کرنے والی ہوگی اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں گی وہ اپنے کو زیادہ مالدار نہیں سمجھے گا اور یہ چیز اس کے اندر نرمی و قناعت اور مسکینی پیدا ہونے کا باعث بنے گی۔
Top