مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6310
وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ستخرج نار من نحو حضرموت أو من حضرموت تحشر الناس قلنا : يا رسول الله فما تأمرنا ؟ قال : عليكم بالشام . رواه الترمذي
حضر موت کا ذکر
اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عنقریب حضرموت کی سمت سے یا یہ فرمایا کہ حضرموت سے ایک آگ نمودار ہوگی اور وہ آگ لوگوں کو جمع کرے گی اور ہانک کرلے جائے گی۔ (یہ سن کر) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! پھر ہمارے بارے میں کیا حکم ہے یعنی اس وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کہاں چلے جانا چاہئے۔ آپ نے فرمایا تمہیں شام میں چلے جانا چاہئے۔ (ترمذی)

تشریح
یا یہ فرمایا یہ راوی کا شک ہے کہ آنحضرت ﷺ نے من نحو حضرموت کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا من حضرموت فرمایا تھا تاہم اگر آپ ﷺ نے نحو کا لفظ ظاہر میں استعمال نہیں فرمایا تو بھی من نحوہا یا من جانبہا کا ہی مفہوم مراد تھا، آگ سے یا تو حقیقت میں یہی ظاہر آگ مراد ہے، یا اس سے فتنے اور شرور مراد ہیں، حضرموت اس وقت ایک شہر کا نام تھا جو یمن میں شامل تھا لیکن اب یہ ایک پورے علاقے کا نام ہے جس کی سرحدیں یمن کے قریب سے شروع ہو کر عمان کے قریب تک چلی گئی ہیں۔ تمہیں شام میں چلے جانا چاہئے کیونکہ شام کی سر زمین کو رحمت کے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں اس لئے وہاں کے رہنے والوں کو اس آگ سے خواہ وہ حسی یعنی ظاہری آگ ہو یا معنوی وحکمی آگ یعنی فتنے اور شرور، کوئی ضرر نہیں پہنچے گا واضح ہو کہ پیچھے قیامت سے متعلق ایک باب کی حدیث میں آگ کا ذکر آیا تھا جو لوگوں کو جمع کر کے محشر کی طرف لے جائے گی۔ اس میں محشر سے مراد شام کی سر زمین ہے اور اس حدیث سے بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت لوگ براہ راست آگ کے اثر کے تحت ہوں گے شام کی طرف جانے میں ان کو اپنا اختیار نہیں ہوگا جب کہ یہاں تمہیں شام چلے جانا چاہئے کے الفاظ یہ مفہوم واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ شام کی طرف جانے میں ان کے اختیار کو دخل ہوگا۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدیث میں حضرموت کی طرف سے نمودار ہونے والی آگ مراد نہیں ہے بلکہ وہ فتنے اور شرور مراد ہیں جو آخر زمانہ میں رونما ہوں گے جن کو آگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
Top