مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6324
عن جعفر عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أبشروا إنما مثل أمتي مثل الغيث لا يدرى آخره خير أم أوله ؟ أو كحديقة أطعم منها فوج عاما لعل آخرها فوجا أن يكون أعرضها عرضا وأعمقها عمقا وأحسنها حسنا كيف تهلك أمة أنا أولها والمهدي وسطها والمسيح آخرها ولكن بين ذلك فيج أعوج ليسوا ولا أنا منهم رواه رزين
امت محمدی ﷺ کا حال
حضرت امام جعفر صادق اپنے والد (حضرت امام محمد باقر) سے اور وہ امام جعفر کے دادا ( یعنی اپنے والد حضرت امام زین العابدین علی بن حسین بن علی) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور خوش ہوجاؤ، بات یہ ہے کہ میری امت اجابت کے افراد کا حال ( حصول منفعت کے اعتبار سے) بارش کے حال کی مانند ہے جس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اخیر بہتر ہے یا اس کا اول بہتر ہے، یا میری امت کی مثال ایک باغ کی مانند ہے جس ( کے کچھ حصوں سے) ایک سال ایک جماعت نے کھایا یعنی نفع اٹھایا اور اس (کے کچھ حصوں سے) دوسرے سال ایک اور جماعت نے کھایا، ممکن ہے وہ جماعت جس نے آخر میں باغ سے کھایا ( پہلی جماعت کے مقابلہ میں) چوڑائی اور گہرائی میں زیادہ ہو اور خوبیوں میں بھی اس سے بہتر ہو، بھلا وہ امت کیونکر ہلاک ( یعنی نیست و نابود) ہو جس کا اول میں ہوں جس کے وسط میں مہدی ہوں گے اور جس کے آخر میں مسیح ہوں گے، ہاں ان زمانوں کے درمیان ایک کج رو ( یعنی گمراہ) جماعت پیدا ہوگی، اس جماعت کے لوگ میرے راستہ و طریقہ پر چلنے والے اور میرے متبعین میں سے نہیں ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں یعنی میں ان سے راضی اور ان کا حامی و مددگار نہیں بلکہ ان کی سرکشی اور ان کے فسق کے سبب ان سے اپنی نا راضگی اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ (رزین)

تشریح
خوش ہو اور خوش ہو۔۔۔ یہ الفاظ آپ ﷺ نے دو بار یا تو تاکید کے لئے فرمائے یا اس تکرار میں یہ نقطہ ملحوظ تھا کہ ایک بشارت تو دین کے اعتبار سے ہے اور ایک بشارت آخرت کے اعتبار سے۔ چوڑائی اور گہرائی میں۔۔۔ یہاں چوڑائی اور گہرائی سے جماعت کی کثرت اور لوگوں کی بڑی تعداد کے معنی مراد ہیں، اس جملہ میں طول، (لمبائی) کا ذکر اس لئے نہیں ہے کہ عرض اور عمق طول کے بعد ہوتا ہے، جب عرض اور عمق کا ذکر آگیا تو گویا طول کا بھی ذکر ہوگیا۔
Top